آخری حصہ

حکیم شمیم احمد

جنسی مریض جو  علاج کے لیے آتے ہیں، یقین کیجیے  ان میں نوے فیصد جنسی نہیں بلکہ ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ اور اگر انہیں چھوٹی موٹی جنسی شکایات ہوتی بھی ہیں تو ان کا علاج اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا مشکل ان کے ذہنوں سے مایوسی اور خوف کو نکالنا ہوتا ہے اور ایسے مریضوں کو ضرورت نہ ہونے پر بھی ادویہ تجویز کرنی پڑتی ہیں

تاکہ انہیں اطمینانِ قلب حاصل ہوسکے کہ ان کا علاج ہورہا ہے ورنہ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر مطمئن ہوکر کسی عطائی کے پاس نہ پہنچ جائیں۔ اور وہ واقعی ان کو مریض بنا دے۔ پڑھا لکھا معالج انہیں اس طرح کی ادویہ تجویز کرے گا جو عام جسمانی و دماغی طاقت کی ہوں اور مریض کی قوتِ ارادی کو بڑھائیں جبکہ عطائی نہ صرف جنسی امراض سے متعلقہ دوائیں دینا شروع کردیتے ہیں بلکہ تیز زہریلی اشیاء سے بنی ہوئی چیزیں دینے سے بھی اجتناب نہیں برتتے۔

جنسی تعلیم کی ضرورت کا احساس بعض بیدار ذہنوں کو کس طرح ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے کہ اب سے چند سال پہلے مجھے لندن سے ایک خاتون کا خط موصول ہوا جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی بلوغت کے قریب پہنچ رہے تھے۔ شوہر کا انتقال ہوچکا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ’’میری بیٹی جب بالغ ہونے لگی تو میں نے اسے جنسی اہمیت کی ضروری باتیں بتائیں جو کہ ایک ماں اپنی بچی کو بتلاتی ہے اور اب جبکہ میرا بیٹا جوان ہورہا ہے تو مجھے خیال آیا کہ ضرور بیٹوں کو ان کے والد اس عمر میں جنسی تعلیم دیتے ہوں گے مگر بیٹے کے ساتھ  مجبوری یہ ہے کہ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے اب میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں اس خلا کو کس طرح پر کروں۔ اس لیے آپ کو خط لکھ رہی ہوں کہ آپ کی نظر میں اگر کوئی ایسا لٹریچر موجود ہو جو اسے ضروری باتوں سے آگاہ کر سکے تو مجھے مطلع کیجیے۔ برطانیہ میں جو اس طرح کا لڑیچر موجود ہے وہ ہمارے ماحول اور تہذیب کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ میں ان خاتون کا خط پڑھ کر بہت متاثر ہوا اور سوچ میں پڑ گیا کہ کتنے باپ ہوں گے جو اس طرح کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوں گے اور اپنے بیٹوں کو جنسی تعلیم دیتے ہوں گے انہوں نے ایک عورت ہوتے ہوئے اس ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے پورا کرنے کی تدبیر بھی نکالی۔

جنسی تعلیم کی طرف سے غفلت لڑکوں کے علاوہ لڑکیوں کے ساتھ بھی عام طور پر برتی جاتی ہے۔ بلکہ یہ معاملہ اس لیے اور سنگین ہوجاتا ہے کہ لڑکیوں کو لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے اور باہر نکلنے کے مواقع کم ملتے ہیں اس لیے ادھر ادھر سے جو کچھ تھوڑی بہت معلومات لڑکوں کو ہو جاتی ہیں وہ اس سے بھی محروم رہتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کو اپنا مونس، ہمدرد اور رفیق سمجھنے کی بجائے اس سے خوفزدہ رہتی ہیں اور اس کی حیثیت ان کی نظر میں ایک شہوانی بھیڑیئے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہی ڈر و خوف ان کے ذہنوں میں اس طرح بیٹھ جاتا ہے کہ وہ اپنی نئی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ڈر و خوف میں گھری ہوئی آفت زدہ ہستیاں بن جاتی ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ایک شادی ہوئی لڑکے کی عمر تقریباً 22 سال تھی اور لڑکی 18 سال کی تھی۔ لڑکی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں لڑکیوں پر بہت سخت پابندیاں رکھی جاتی ہیں حتیٰ کہ انہیں اسکول سے آگے کالج میں پڑھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ لڑکی کو ازدواجی زندگی کے بارے میں قطعاً کچھ نہیں بتلایا گیا صرف رخصتی کے وقت گھر کی کسی بزرگ خاتون نے اتنا کہہ دیا تھا کہ وظیفۂ زوجیت ایک بہت تکلیف دہ عمل ہے چنانچہ تمہیں صبروبرداشت سے کام لینا ہوگا۔ ان کی اس نامکمل تعلیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ لڑکی سخت خوفزدہ ہوگئی۔ شادی کے تین ماہ بعد اس کے شوہر نے آکر بتلایا کہ وہ جب بھی قربت کا ارادہ کرتا ہے۔ خوف کی وجہ سے لڑکی پر دورے جیسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے کیفی اور جھنجلاہٹ کی زندگی بسر کر رہا ہے، اس لڑکی کا علاج دواؤں سے ممکن نہیں تھا چونکہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی صرف غلط اور نامکمل تعلیم نے اس کے لیے مسائل پیدا کر دیئے تھے اور جب تک اس کے ذہن سے خوف نہیں نکلے گا اس وقت تک ان دونوں کی زندگیوں میں خوشیاں اور رنگینیاں واپس نہیں آسکتیں اور یہ کام کوئی ماہر نفسیات ہی کر سکتا ہے۔

اس ذیل میں ایک بات اور کہنے کی جسارت کروں گا جو میں نے اپنی معالجاتی زندگی میں دیکھی  ہے کہ وہ لڑکے جو جنسی معاملات سے بالکل کنارہ کش رہتے ہیں اور اسے شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں جنس کوئی گندگی، گالی یا اخلاق سے گری ہوئی چیز ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر جنسی کمزوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چونکہ جنس کے بارے میں ان کے خیالات، جنسی اعضاء کے کام اور جنسی رطوبات کے بننے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسانی جسم کی یہ خصوصیت ہے کہ جن اعضاء سے لمبے عرصے تک کام نہ لیا جائے یا کم کام لیا جائے۔ وہ کمزور ہوجاتے ہیں۔ ذہن بچپن سے ہی جن جسمانی قوتوں کی نفی کر رہا ہو اور انہیں برا اور گناہ آلودہ سمجھ رہا ہو وہ قوتیں کس طرح جسم کے اندر پروان چڑھ کر مضبوط و توانا ہوسکتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو شادی کے بعد بڑی حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ اس قدر محتاط اور الگ تھلگ زندگی بسر کرنے کے بعد بھی انہیں جنسی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جنسی آزادی اور جنسی تعلیم میں بڑا فرق ہے، جنسی آزادی نے امراض زہراویہ (وی ۔ ڈی) اور ایڈز جیسے تحفے دنیا کو دیے ہیں جبکہ جنسی تعلیم تناسلی اعضاء کے صحیح طریقے اور صحیح وقت پر استعمال اور ان کی ضرورت و اہمیت کی جانب توجہ دلاتی ہے تاکہ انسان اپنی شہوت کو قابو میں رکھ سکے اس طرح جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور جنسی کشش جب پیدا ہونا شروع ہوں گی تو اس سے پہلے ان سب سے مقابلہ کرنے کے لیے ذہن تیار ہوگا۔

جنسی تعلیم کی ضرورت آج پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی کر دی جاتی تھیں اور انہیں ’’جنسی فاقہ کشی‘‘ زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرنی پڑتی تھی اب بہت سے مسائل ایسے پیدا ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے بچوں کی شادی جلد کردینا ممکن نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتظار و ہجر کی یہ طویل شام غیر فطری تسکین کے بہت سے راستے کھول دیتی ہے جو آگے چل کر بہت سے جنسی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

جنسی تعلیم کے لیے عمر کا تعین کرنا زیادہ دشوار نہیں ہے۔ بچے جس عمر میں بھی جنس کے بارے میں سوالات کرنے لگیں یا انہیں تجسس پیدا ہو وہی جنسی تعلیم کے لیے بہترین وقت ہے ورنہ بچے کے بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر اپنے اس فرض سے والدین کو سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ اس موقع پر باپ کو بچے کے ساتھ بے تکلف ہوجانا چاہیے چونکہ بچہ جنسی زندگی کی پُرپیچ راہ کے ہر موڑ سے حیران و پریشان کھڑا ادھر اُدھر دیکھتا رہتا ہے اس کی اس پریشانی کو باپ ہی صحیح راستہ دکھا کر دور کر سکتا ہے۔

جنسی تعلیم کے لیے اردو زبان میں لٹریچر کی بڑی کمی رہی ہے۔ اور بہت کم کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ ڈاکٹر کرنل بھولا ناتھ کی کتاب ’’جنسی امراض اور ان کا علاج‘‘ اور شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کی ’’سلک مروارید‘‘ شائع ہوئیں۔ یہ علمی کتابیں ہیں مگر علاج معالجہ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ اس لیے جنسی تعلیم کے مقصد کا پوری طرح احاطہ نہیں کرتیں۔ ادارہ ہمدرد نے اپنے رسائل کے خاص نمبر شائع کرکے نیز اپنے مطبوں میں آنے والے مریضوں کی زبانی اور خطوط کے ذریعہ صحیح رہنمائی کرکے اس خلا کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے مگر جنسی تعلیم اور تربیت پر بڑا اور جامع کام اردو زبان میں ڈاکٹر محمد عبدالحی صاحب نے کیا ہے۔ آپ کی تین کتابیں ’’جنسی صحتیاب‘‘، جنسی چیستان‘‘ اور ’’جنسی زاویے‘‘ میری نظر سے گزریں جو کہ ۔عائشہ چیمبرز عبداﷲ ہارون روڈ کراچی سے شائع ہوئی ہیں۔ یہ کتابیں اس موضوع کا بڑی حد تک احاطہ کرتی ہیں۔

اپنے بچوں کو جنسی تعلیم دیجیے تاکہ وہ شکوک و شبہات اور احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر ایک کامیاب صحت مند اور نشاط انگیز زندگی بسر کر سکیں۔ کیونکہ اس پر قوم کے بہتر اور صحت مند مستقبل کا انحصار ہے۔