صنف نازک کی صحت کو تفنن طبع کے طور پر تو ’’صحت نازک‘‘ کہا جا سکتا ہے لیکن اس صحت کو اتنا نازک نہیں ہونا چاہیے  کہ بلا جواز اندیشوں اور بے جا خوف کی وجہ سے صحت کو ہمیشہ کے لیے خراب کر لیا جائے

 حکیم شمیم احمد

   جوانی کی آرزوئیں:

   جوانی اپنے ساتھ بہت سی تمنائیں اور آرزوئیں لے کر آتی ہے، یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب انسان کی دل چسپیوں کا محور اس کا اپنا جسم، چہرہ اور حُسن و شباب ہوتا ہے اور فطری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے چاہا جائے اور پسند کیا جائے۔ لڑکیوں میں یہ خواہش  ان کی ضرورت بن جاتی ہے کیونکہ انہیں شریکِ حیات منتخب کرنے والے سب سے زیادہ ان کے حُسن و شباب پر نظر رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قدرت نے خواتین کے مزاج میں بننے، سنورنے اور اپنی زیبائش کا اہتمام کرنے کی عادت رکھی ہے۔ کسی نوجوان لڑکی کے چہرے پر اگر دو چار مہاسے نکل آئیں تو وہ سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بہت سی خواتین کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ جاتے ہیں، جلد بے رنگ ہوجاتی ہے، ہونٹ پھیکے پڑ  جاتے ہیں، قد مناسب طور پر نہیں بڑھتا یا جسم کی نشوونما پوری طرح نہیں ہوپاتی۔یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی کوئی بھی شکایت اگر کسی نوجوان لڑکی کو ہوجائے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔

جسمانی کشش متاثر ہونے کا خطرہ :

     نوجوان لڑکیوں کو لاحق ہونے والی یہ شکایات اس اعتبار سے زیادہ تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتی ہیں کہ وہ ان امراض سے سخت خوفزدہ رہتی ہیں اور ان کی بابت اپنی ازلی شرم کی وجہ سے کسی سے کچھ پوچھ نہیں سکتیں، یہ خوف لا علمی یا کم علمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے  پھر ان کی فطری حیا آڑے آتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی معالج تو درکنار اپنی والدہ سے بھی اپنے مخصوص مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے سخت جھجک محسوس کرتی ہیں۔ شرم و حیا لڑکیوں کا اصل زیور ہے لیکن اس کو علاج کی راہ میں اس طرح حائل نہیں ہونا چاہیے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض چھوٹی چھوٹی اور معمولی شکایات نوجوان لڑکیوں کے لیے سخت پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں، ان کی وجہ سے وہ خوف اور احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگتی ہیں، انہیں اپنے مرض سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جس قدر نقصان اس خوف اور احساس کمتری سے پہنچتا ہے، انہیں صرف یہی خوف ہوتا ہے کہ جس صورتحال سے وہ دوچار ہیں وہ ان کی جسمانی کشش کو متاثر کر دے گی اور ان کے ازدواجی انتخاب میں رکاوٹ بن جائے گی۔

خوف و احساس کمتری :

   امراض نسواں کے حوالے سے مجھے ایسی نوجوان لڑکیوں کی ذہنی کیفیت اور مجبوری کا اندازہ ان کے خطوط سے ہوتا ہے جو بہت شرمندگی کے ساتھ معذرت خواہانہ انداز میں مجھے لکھتی ہیں، وہ اس قدر خوفزدہ ہوتی ہیں کہ خط کے آخر میں اپنے نام کا مخفف مثلاً م۔ج۔ لکھتی ہیں، جواب کسی سہیلی کے پتے پر بھیجنے کی درخواست کرتی ہیں۔ یہ بچیاں جو کچھ شکایات اپنے خطوط میں درج کرتی ہیں وہ بہت عام تکالیف ہوتی ہیں جو خواتین کو اکثر ہوجاتی ہیں۔ ان تکالیف کا تعلق غذا یا رہن سہن سے ہوتا ہے اور عمومی صحت پر توجہ دینے یا مناسب علاج سے انہیں آسانی کے ساتھ دور کیا جا سکتا ہے، ان خطوط میں خوف اور احساسِ کمتری کا جو عنصر مجھے ملتا ہے، وہی دراصل یہ مضمون لکھنے کا محرک بنا ہے۔

اچھے معالج کی خوبی :

     خواتین اور مردوں کو اﷲ تعالیٰ نے بعض مختلف جسمانی اعضاء عطا کئے ہیں۔ اسی فرق کی وجہ سے خواتین اور مردوں کے بعض امراض بھی مختلف ہیں لیکن ایک معالج کی نظر میں مرض کی صرف ایک ہی اہمیت ہوتی ہے کہ وہ مرض  ہے اور اسے اس کا علاج کرنا ہے۔ یہ مرض کسی مرد کو ہے یا خاتون کو  سر میں ہے یا پیر میں، اس سے معالج کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا، ایک اچھے معالج کی تعریف ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسی وقت صحیح تشخیص اور علاج کر سکتا ہے جب وہ  عہدہ، مرتبہ، حسن اور جنسی  تفصیلات میں جائے بغیر مرض کی تشخیص پر توجہ دے ورنہ وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

 

رام چندر جی اور ان کے استاد

   ایک مشہور روایت ہے کہ رام چندر جی ایک دن اپنے استاد کے ساتھ جنگل کی سیر کر رہے تھے، ان کے ساتھ چند اور شاگرد بھی تھے جنہیں استاد سے شکایت تھی کہ وہ رام چندر جی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سیر کے دوران میں استاد کو ایک درخت پر چند پرندے بیٹھے ہوئے نظر آئے، استاد نے اپنے شاگردوں میں سے ایک سے کہا کہ:

"اوپر کی شاخ پر جو سفید رنگ کا پرندہ بیٹھا ہے اس کو تیر سے نشانہ بنائے۔"

شاگرد نے کمان سیدھی کرکے نشانہ لیا-

 استاد نے پوچھا:

’’تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟ ‘‘

شاگرد نے جواب دیا:

’’ایک بڑا درخت ہے اس پر کئی پرندے بیٹھے ہیں، سب سے اوپر والی شاخ پر ایک سفید پرندہ بیٹھا ہے میں اس کا نشانہ لگا رہا ہوں‘‘۔

استاد نے پہلے شاگرد کو نشانہ لگانے سے روک دیا اور ایک ایک کرکے دوسرے تمام شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ نشانہ لگائیں جب وہ نشست باندھ چکے تو ان سے بھی وہی سوال کیا کہ تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟ دوسرے تمام شاگردوں کا بھی جواب پہلے شاگرد کے جواب جیسا ہی تھا، انہوں نے بھی تفصیل بیان کی کہ درخت ہے، کئی پرندے ہیں، اونچی شاخ ہے اور سفید پرندہ ہے ، سب سے آخر میں استاد نے رام چندر جی سے کہا کہ وہ نشانہ لگائیں اور ان سے بھی یہی سوال کیا کہ تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟

 رام چندر جی کا یہ جواب تھا:

’’صرف وہ پرندہ جس کا میں نے نشانہ لیا ہے۔‘‘

بالکل اسی طرح معالج کی نظر بھی صرف اس کے ہدف یعنی مرض اور اس کے سبب پر رہتی ہے، اس لیے اس سے اپنے کسی بھی حصۂ جسم کے بارے میں بات کرتے ہوئے جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ خواتین کے لیے تو طبیبائیں اور خواتین ڈاکٹر بھی موجود ہیں۔

 

امراض نسواں کی شکایات و علامات

 

     کم عمر بچیاں زیادہ تر جن شکایات سے پریشان رہتی ہیں وہ یہ ہیں:

٭ جسم کی بالیدگی کا متاثر ہونا، جلد اور ہونٹوں کی رنگت کا پھیکا پڑ جانا-

٭آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کی موجودگی، جلد پر داغ دھبے یا مہاسے ہوجانا۔

٭ نسوانی حسن کی پوری طرح نشوونما نہ ہونا-

٭ایام کی خرابی اور سب سے بڑھ کر سیلان الرحم (لیکوریا)۔

امراض نسواں کی علامات

اوپر بیان کردہ شکایات میں سے بیشتر کا تعلق عمومی صحت سے ہے۔ لحمیات (پروٹین)، حیاتین (وٹامن) اور معدنی اجزا (منرلز) کی کمی اس قسم کے بہت سے عارضوں میں مبتلا کر دیتی ہے، دراصل بچیاں جب جوانی کی عمر کو پہنچتی ہیں تو وہ اکثر غذائی قلت کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ یہی عمر ہوتی ہے جب ان کا جسم تیزی سے بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہی عمر محنت مشقت، دوڑ دھوپ اور کھیل کود کی ہوتی ہے، اسی عمر میں ایام شروع ہوتے ہیں جو خون کا اضافی خرچ ہے اگر اس عمر میں غذا اور عام صحت پر توجہ نہ دی جائے تو بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں-

 ٭  سب سے پہلے تو جسم کی نشوونما رک جاتی ہے اور جسم اپنی بھرپور رعنائی حاصل نہیں کر پاتا، نسوانی حسن ظاہر نہ ہونے کی بڑی وجہ غذائی قلت یا اس کا عدم توازن ہے-

٭جلد کی رنگت کا پیلا، پھیکا یا بے رنگ ہونے کی بڑی وجہ خون کی کمی ہے، اسی وجہ سے ہونٹوں کی رنگت پھیکی اور آنکھوں کے سفید حصے کی رنگت سیاہی مائل ہوجاتی ہے-

٭ایام میں بے قاعدگی پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ان میں کمی بیشی ہو جاتی ہے یا وقفہ میں یکسانیت نہیں رہتی-

٭  ہاتھ پیروں کا سرد رہنا-

 ٭جلد تھک جانا-

 ٭ سانس پھول جانا-

٭مزاج چڑچڑا ہوجانا جیسی تمام علامات خون کی کمی سے ظاہر ہوتی ہیں۔

 امراض نسواں کی وجوہات

    یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جلد کی رنگت تو قدرتی ہوتی ہے یعنی کسی کا رنگ گورا ہوگا تو کسی کا سانولا، کسی کا گندمی لیکن جلد کی اس قدرتی رنگت میں جاذبیت اس وقت پیدا ہوجاتی ہے:

  ٭جب جسم میں خون مناسب مقدار میں موجود ہو اور وہ جسم کے تمام حصوں تک درست طریقے سے پہنچ رہا ہو، خون کی کمی جلد کی رنگت کو بے رنگ اور بے کشش بنا دیتی ہے، خواہ یہ رنگت صاف ہو یا دبی ہوئی اگر سانولے رنگ کی جلد کے پیچھے خون صحت مندی کی جھلک دکھا رہا ہو تو یہی سانولا رنگ و حسن و دلکشی کا باعث بن جاتا ہے ورنہ صاف اور گورا رنگ بھی پھیکا محسوس ہوتا ہے اور بھدے پن کی نذر ہوجاتا ہے۔

٭ سیلان الرحم عام طور پر غذائی اجزاء کی کمی سے ہوتا ہے، اس میں بھی خون کی کمی کا دخل ہے، معدنیات اور حیاتین کی کمی بھی ایک سبب ہے۔

٭  اندرونی زخم، سوزش اور ورم سے بھی یہ شکایت ہوجاتی ہے لیکن نوجوانی میں اس کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

٭ اعصابی حساسیت، ہیجان اور دیگر ذہنی کیفیات بھی اسی لیے وجہ سے ہوتی ہیں-

 ٭بعض ہارمونز کی کمی بیشی سے بھی یہ شکایت ہوسکتی ہے لیکن اس مرض کے سب سے عام اسباب عمومی صحت کا خراب ہونا، قبض اور خون کی کمی ہیں، اس طرح مزید قلت خون اور کمزوری بڑھتی جاتی ہے-

٭اسی وجہ سے آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ جاتے ہیں-

٭ کمر اور پنڈلیوں میں درد رہنے لگتا ہے-

 ٭چکر آنے اور سانس پھولنے جیسی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں-

 

 

٭جسم میں سستی اور کسلمندی رہتی ہے اور نسوانی کشش ماند پڑ جاتی ہے-

ان شکایات کی وجہ سے ذہن پر بھی برا اثر پڑتا ہے، ناپاکی کا احساس بھی پریشان کئے رکھتا ہے۔ شادی شدہ خواتین کو اگر یہ شکایت بہت زیادہ ہو تو حمل قرار پانے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

 

* امراض نسواں اور متوازن غذا اور احتیاط*

    سیلان الرحم اگر کبھی کبھار یا بہت تھوڑی مقدار میں ہو تو یہ کوئی مرض نہیں ہے بلکہ ایک طبعی صورت ہے جو ہر ایک کے ساتھ پیش آسکتی ہے، اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اوپر ہم نے جو شکایات بیان کی ہیں ان کا بنیادی سبب خون کی کمی ہے-

 

ا🟢 س لیے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو اپنی غذا پر بڑی توجہ دینی چاہیے۔ اس عمر میں غذا کی طرف سے غفلت، صرف پسندیدہ اور چٹ پٹی چیزیں کھانا یا موٹے ہو جانے کے خوف سے غذا میں کمی کر دینا لڑکیوں کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ میں نوجوان بچیوں سے کہوں گا کہ غذا میں کمی (ڈائٹنگ) معالج کے مشورے کے بغیر کبھی نہ کیجیے ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ جسمانی نشوونما کو اس طرح نقصان پہنچا لیں کہ وقت گزر جانے کے بعد کوئی غذا، کوئی ٹانک اور کوئی ورزش اس کمی کو پورا نہ کر سکے۔

🟢 نوجوان بچیوں کو لحمیات (پروٹین) رکھنے والی غذائیں مثلاً گوشت، مچھلی، انڈا، دودھ، بالائی، مٹر، سویابین، سیم، دالیں کثرت سے استعمال کرنی چاہئیں-

٭🟢  انہیں بڑی مقدار میں پتوں والی سبزیاں پکا کر یا  سلاد کی شکل میں کھانا چاہئیں-

 

🟢٭ انڈے کی زردی، دودھ، لسی، انار، امرود، سیب، کھجور، اخروٹ، بادام استعمال کیے جائیں۔

 

٭🟢 دالیں اور گندم چھلکے سمیت استعمال کریں یعنی آٹے کو چھان کر بھوسی الگ نہ کی جائے۔

 

🟢٭ کلیجی، ہڈیوں کا گودا اور یخنی بھی بہت مفید ہے۔

 

امراض نسواں کا علاج

 

        ایام کی کمی بیشی اور دقت سے آنے کے سلسلے میں غذا پر توجہ دینے سے ان شاء اﷲ اچھے نتائج برآمد ہوں گے -

 

🔵 اگر پھر بھی شکایت دور نہ ہو تو ایام کی کمی دقت سے آنے کے علاج کے لیے سونف، مکوہ، تخم خیارین، پانچ پانچ گرام کی مقدار لیں، انہیں ایک پیالی میں جوش دے کر چھان لیا جائے، پھر شربت بزوری معتدل، کھانے کے دو چمچھے ملا کر صبح نہار منہ پیا جائے، اسی دوا کو رات میں سوتے وقت دوبارہ جوش دے کر چھان لیں اور شربت بزوری معتدل ملا کر پی لیں۔ ’’مستورین‘‘ بھی فائدہ دیتی ہے۔

 

  چائے کا ایک چمچہ سہ پہر میں پی لیا جائے اگر ناف سے  نیچے دبانے پر درد کا احساس بھی ہوتا ہے جو دوران ایام بہت بڑھ جاتا ہو تو صبح اور سوتے وقت جوش دینے والی مذکورہ دواؤں کے ساتھ معجون دبیدالورد چائے کا نصف چمچہ بھی نوش کریں

 

🔵  اگر ایام بہت زیادہ آتے ہوں تو صبح اور سوتے وقت حب الاس، بیخ انجبار، ریش برگد پانچ پانچ گرام لے کر ایک پیالی پانی میں جوش دے لیں اور چھان کر شربت انجبار دو چمچے (کھانے کے) ملا کر پلائیں اگر بہت زیادتی ہو تو قرص کہربا ایک عدد پہلے کھلا دی جائے یا پھر تیار شدہ دوا ’’مینوتات‘‘ ایک چمچہ چائے کا  نصف پیالی ٹھنڈے پانی میں ملا کر اور شربت انجیار دو چمچے کھانے کے ملا کر صبح اور رات کو پلائے جائیں۔ سفوف استحاضہ اور سفوف سرخ بھی تین تین گرام صبح اور سہ پہر میں پانی کے ساتھ کھلائے جا سکتے ہیں۔

 

🔵 سیلان الرحم کی شکایت ہو تو ’’سپاری پاک ویدک‘‘ دانوں کی شکل میں خوش ذائقہ مرکب ہے۔ صبح نہار منہ کھانے کا ایک چمچہ ایک پیالی دودھ یا پانی کے ساتھ دینا چاہیے۔

 

🔵 حب مروارید ایک گولی سوتے وقت پانی کے ساتھ دے دی جائے۔

 

🔵 مزید زود اثر بنانا ہو تو دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد پانی کے ساتھ ’’نی سا‘‘ کی دو دو گولیاں کھلا دی جائیں۔

 

  اگر دوا خود تیار کرنا چاہیں تو اس سلسلہ میں املی کے بیج بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ املی کے بیجوں کو بھون کر ان کا چھلکا الگ کر دیں پھر ان کا باریک سفوف بنا کر اس کے وزن کے برابر شکر ملا کر رکھ لیں، کھانے کا ایک چمچہ صبح نہار منہ اور پھر رات کو سونے سے قبل لیا جائے-

 

  ایک اور دوا یہ ہو سکتی ہے کہ کیکر کا گوند، کیترے کا گوند اور املی کے بیج برابر مقدار میں لے کر ان کا باریک سفوف تیار کر لیا جائے اور اس سفوف کے وزن کے برابر شکر ملا کر رکھ لیں۔ صبح اور سوتے وقت ایک ایک چمچہ چائے کا پانی کے ساتھ نوش کریں۔

 

🔵 ایک صورت اور ہے کہ آم کی گٹھلی کا مغز ۲۰۰ گرام لے کر ہلکی آنچ پر بھون لیں پھر اس کا باریک سفوف بنا لیں اس میں اتنی ہی شکر ملا کر صبح اور سوتے وقت ایک ایک چمچہ پانی کے ساتھ لیا جائے۔

 

  اس کے علاوہ ایک طریقہ یہ ہے کہ کیکر کی نرم پھلیوں کو سائے میں خشک کر کے ان کا باریک سفوف بنا لیا جائے، اس کے وزن کے برابر شکر ملا کر صبح اور سوتے وقت  کھانے کا ایک ایک چمچہ نوش کیا جائے.

 

🔵 ان تمام دواؤں کے استعمال کے ساتھ ساتھ خیال رہے کہ قبض نہ ہونے دی جائے اور صحیح وقت پر آنے والے ایام کے دوران ان دواؤں کا استعمال بند کر دیا جائے-

 

  اس کے علاوہ ذہنی ہیجان اور اعصابی تناؤ سے بچنا چاہیے۔

  ورزش کی اہمیت :

نو عمر بچیوں کے لیے ورزش کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ پرانے زمانے میں گھر کے کام کاج کو انجام دیتے ہوئے ہی اچھی خاصی ورزش ہوجاتی تھی لیکن اب مشینی سہولتوں اور تیار مسالوں نے کام کاج کی نوعیت خاصی تبدیل کر دی ہے، اس لیے لڑکیوں کو کھیل کود میں حصہ لینا چاہیے مثلاً دوڑ، سائیکل سواری، بار پر لٹک کر جھولا جھولنا، رسی کودنا وغیرہ خاص طور پر ان بچیوں کے لیے جو اپنے قد میں اضافہ چاہتی ہوں اگر گھر سے باہر کھیل کود میں حصہ لینا ممکن نہ ہو تو گھر کے اندر بھی ورزشیں کی جا سکتی ہیں۔ کھلی ہوا میں روزانہ لمبی لمبی سانس لینا بھی ضروری ہے، یہ خیال رہے کہ ورزشیں بہت تیز دھوپ یا سخت موسم میں نہ کی جائیں ورنہ جلد کھردری ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے۔ ایسی ورزشیں کرتے ہوئے جن سے ہاتھوں پر رگڑ پڑتی ہے، دستانے پہن لیے جائیں تو اچھا ہوگا۔

 

   یاد رکھیں! صنف نازک کی صحت کو تفنن طبح کے طور پر تو ’’صحت نازک‘‘ کہا جا سکتا ہے لیکن اس صحت کو اتنا نازک نہیں ہونا چاہیے کہ معمولی معمولی باتوں سے متاثر ہونے لگے اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ بلا جواز اندیشوں اور بے جا خوف کی وجہ سے صحت کو ہمیشہ کے لیے خراب کر لیا جائے۔