آپ نے باقاعدہ طور پر پہلی نماز 25 جمادی الاخرہ 1428ھ بروز جمعہ شام کو پڑھائی۔ اس دن سے آج تک آپ اللہ کے فضل و کرم سے اسی عہدے پر فائزہیں۔  آپ وہ پہلے امام ہیں، جن کو سعودی بادشاہ نے "امام الائمہ" کا لقب دیا۔آپ کے بارے میں عربی کا مقولہ مشہور ہے ۔"لقد اُعطي مزماراً من مزامير آل داوود"۔اس کے علاوہ آپ کو "بلبل ِحرم" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے
سمیہ عثمان


مسجد الحرام روئے زمین پر سب سے بڑی اور سب سے زیادہ خوب صورت مسجد ہے۔ اس جیسی مسجد نہ آج سے پہلے کبھی تھی، اور نہ کبھی ہوگی۔ اس میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کے ثواب کے برابر ہے۔یہ تعظیم و تکریم اور اجر و ثواب تو فقط اس شخص کے لیے ہے جو وہاں نماز پڑھتا ہے سوچیے اس شخص کی قدر و منزلت اس کی رفعت اور علو شان کے بارے میں جو وہاں "امامت" کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ویسے تو حرم کے تمام "ائمہ" ہی قابل احترام، لائق صد تکریم ہیں۔ آج پورے عالم میں ان کا کوئی مثل نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ رب العالمین نے انہیں لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے اپنے گھر کی امامت کے لیے مختص کر لیا، جس پر جتنا بھی رشک کیا جائے وہ کم ہے۔ انہی اماموں میں سے ایک بہت ہی مایا ناز ،قابل فخر ،قابل احترام ،نہایت ہی خوبصورت آواز کے مالک شیخ عبداللہ بن عواد الجہنی ہیں ۔

آپ کا پورا نام "عبداللہ بن عواد بن فہد الذیبانی الجہنی" ہے۔آپ پیر کے دن 11 محرم 1396 ہجری بمطابق 13 جنوری 1976 میں شہر مقدس "مدینہ منورہ" کے ایک بہت ہی مشہور و معروف قبیلہ "جہینہ" میں پیدا ہوئے۔ قبیلہ جہینہ کا شمار عرب کے بڑے اور معزز قبائل میں ہوتا ہے۔آپ بچپن ہی سے نہایت عمدہ صفات کے مالک، خوش اخلاق، حلیم الطبع، سلیم القلب، عجزوانکساری، کے پیکر ذکاوت میں اپنی مثال آپ تھے۔جیسے ہی آپ "سن شعور" کو پہنچے، تو آپ کے والد محترم نے آپ کو مدینہ منورہ کی" مسجد اشرف" جو کہ حرہ غربیہ میں واقع ہے. وہاں آپ کو تحفیظ قرآن کے لیے بھیجا۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے جب کبھی کبھار گھر سے نکلتے اور اپنے ہم عمر ساتھیوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھتے تو آپ کا ننھا سا دل ان کی طرف مائل ہو جاتا، اور آپ ان کے ساتھ کھیل میں شریک ہو جاتے،بالکل اس معصوم بچے کی طرح جو کسی کھلونے کو دیکھتا ہے اور سب بھول جاتا ہے اور اس سے کھیلنے لگ جاتا ہے۔آپ کے والد ماجد پڑھائی کے معاملے میں انتہائی سخت تھے، اور چھٹیوں کے شدید مخالف تھے۔ لیکن آپ کی والدہ ماجدہ میں رحمت و شفقت کا وہ سمندر موجزن تھا، کہ جس کو بیان کرنے سے زبان قاصر ہے۔ آپ کی والدہ کی بہت بڑی خواہش تھی، کہ وہ اپنے بیٹے کو اعلی مناصب پر دیکھیں، جس کی وجہ سے وہ اکثر اوقات آپ کو مسجد کے دروازے تک چھوڑنے آتیں۔ جب تک آپ اندر نہ چلے جاتے، تب تک وہ گھر تشریف نہ لے جاتیں۔ تہجد کے بابرکت وقت میں آپ کو سبق یاد کرواتیں، اس لیے کہ تہجد کے وقت قرآن پاک پڑھنا پختگی اور اتقان کا سبب ہے۔

آپ اپنے والدین کی دعاؤں اور ان کی جدوجہد سے ترقی کی اعلی منزلیں طے کرتے رہے، اور 13 سال کی عمر میں تکمیل حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی اور پرائمری تعلیم العز بن عبدالسلام اسکول سے حاصل کی۔ختم قرآن کے بعد آپ نے "علوسند" کے لیے مسجد نبوی کا رخ کیا، اور ابراہیم الاخضر سے سند تلاوت حاصل کی جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام تک متصل تھی ۔آپ نے اسی طرح تعلیم وتعلم کا یہ سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ "جامعہ ام القری" مکہ مکرمہ سے "اصول تفسیر"میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع کیا سب سے پہلے مدرسہ "ابی بن کعب" میں تحفیظ قرآن کریم کے لیے استاد مقرر ہوئے۔پھر ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے کی طرف منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ "جامعہ ام القری" میں استاد مقرر ہوئے ۔

آپ کو دوسرے ائمہ پر اس وجہ سے بھی فوقیت حاصل ہے، کہ آپ نے دنیا کی چار بڑی مساجد میں امامت کروائی۔ سب سے پہلے مسجد قبا پھر قبلتین پھر مسجد نبوی اور اس کی انتہا مسجد الحرام پر ہوئی۔ 1426ھ میں آپ کو مسجد الحرام میں فقط نماز تراویح کے لیے امام مقرر کیا گیا۔دو سال تک آپ مسجد الحرام میں فقط تراویح کے امام تھے۔1428ھ میں باقاعدہ طور پر آپ مسجد الحرام کے" امام و خطیب" مقرر ہوئے۔آپ نے باقاعدہ طور پر پہلی نماز 25 جمادی الاخرہ 1428ھ بروز جمعہ شام کو پڑھائی۔ اس دن سے آج تک آپ اللہ کے فضل و کرم سے اسی عہدے پر فائزہیں۔ آپ وہ پہلے امام ہیں، جن کو سعودی بادشاہ نے "امام الائمہ" کا لقب دیا۔آپ کے بارے میں عربی کا مقولہ مشہور ہے ۔"لقد اُعطي مزماراً من مزامير آل داوود"۔اس کے علاوہ آپ کو "بلبل ِحرم" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج بھی جب آپ حرم کی سرزمین پر اپنی "مسحور کن" آواز میں تلاوت کرتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے،گویا کانوں میں رس انڈیل دیا گیا ہو۔اور دل یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش "وقت یوں ہی تھم جائے، آپ پڑھتے جائیں اور ہم سنتے جائیں"۔