بابا جمیلے اس مرتبہ آنے والی 14 اگست کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہا تھا کہ کب جشن آزادی منانے کا دن آئے اور بچے بڑے اس سے جھنڈیاں خریدیں گے کیونکہ اس مرتبہ وہ پورے ستر سال کا ہوگیا تھا مگر کچھ دنوں سے وہ کافی پریشان تھا کیونکہ اس جگہ کا کرایہ وصول کرنے والوں کا تناؤ محسوس کر رہا تھا، وہ کرایہ بڑھانے کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ بابے جمیلے کو یہ جگہ خالی کرنے کہہ رہے تھے تاکہ وہ یہ جگہ کسی اور کو دے دیں۔
عظمی ظفر

شہر کے معروف چوراہے پر مختلف اسٹال سجے ہوئے تھے، ایسے میں ایک جانب چھوٹا سا ٹھیلا بابے جمیلے کا بھی تھا، جس کے بالوں میں سفیدی اتر آئی تھی، گھنی ڈاڑھی بھی سفید ہوچکی تھی، ہاتھوں کی جھریاں اس بات کی گواہ تھیں کہ اس نے جانے کہاں کہاں اپنے ٹھیلے کو زندگی کے ساتھ گھسیٹا ہے۔ بابے جمیلے کا ٹھیلا بھی موسمی ٹھیلا تھا، بیس پچیس سال قبل جب آتش جوان تھا تب وہ اسی ٹھیلے پر آلو چھولے کی چاٹ لگاتا تھا ،جو اس کی بیوی صبح سویرے تیار کرکے دیتی تھی مگر بیوی کے مرنے کے بعد اس کا کام کم ہوتا گیا اور پھر اس نے وقت کے دھارے پر خود کو بہنے دیا۔ اب اس کا ٹھیلا موسمی ٹھیلا تھا، جس پر وہ پرانی مارکیٹ سے تھوک کے حساب سے مال اٹھاتا اور بیچتا تھا، ربیع الاول کا مہینہ آتا تو برقی قمقموں کی جھالریں، مدنی پھولوں والے جھنڈے لہرانے لگتے، عیدالامیلادالنبی کے عنوان سے مختلف چیزیں ٹھیلے پر جمع کرلیتا، محرم الحرام کا مہینہ ہوتا تو بچوں کے لیے تلواریں، تازیے ،کاغذی کھلونے سجے ہوتے، عیدالاضحی پر جانوروں کی اوجھڑیاں، کھالیں، سری کا خریدار بن جاتا، سردیاں آتیں ،تو مفلر اونی ٹوپے گرم موزے دستانے ٹھیلے کی بہار بن جاتے، آموں کے موسم میں آموں کی قطار بابے جمیلے کے ٹھیلے کی رونق ہوتے غرض ہر موسم میں وہ موقع کی مناسبت سے اپنے ٹھیلا لگاتا تھا کبھی آمدنی زیادہ ہوتی تو کبھی کم پر گزارہ کرتا اور سوہنے رب کا لاکھ شکر ادا کرتا۔

اگست کے مہینے میں اسکا ٹھیلا امیدوں امنگوں سے بھرا ہوتا سبز ہلالی پرچم، جھنڈیاں ہر شے بابے جمیلے کے لیے بے حد قیمتی ہوجاتے چاند تارے والے پرچم کو جب لہراتے دیکھتا تو وہ بھی خوشی سے آواز لگاتا۔ لے کر رہیں گے پاکستان
بٹ کر رہے گا ہندوستان
اپنے گاہکوں کو وہ بہت احتیاط سے پرچم تھماتا کہ کہیں زمین پر گر نا جائے، ارد گرد کے اسٹال والے برسوں سے بابے جمیلے کو یوں جھنڈے سے محبت اور عقیدت کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔
بابا جمیلے اس مرتبہ آنے والی 14 اگست کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہا تھا کہ کب جشن آزادی منانے کا دن آئے اور بچے بڑے اس سے جھنڈیاں خریدیں گے کیونکہ اس مرتبہ وہ پورے ستر سال کا ہوگیا تھا مگر کچھ دنوں سے وہ کافی پریشان تھا کیونکہ اس جگہ کا کرایہ وصول کرنے والوں کا تناؤ محسوس کر رہا تھا، وہ کرایہ بڑھانے کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ بابے جمیلے کو یہ جگہ خالی کرنے کہہ رہے تھے تاکہ وہ یہ جگہ کسی اور کو دے دیں اور بابا بھی اس مشہور اور اہم چوراہے کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا تھا، اس نے ساتھ والے شوکت سے بھی اس کا ذکر کیا، وہ بھی اس بات پر پریشان تھا کہ لالا فرید کو اچانک کیا ہوگیا بابا جمیل اور اس کا ساتھ تو گزشتہ دس سال سے تھا وہ تو کرایہ بھی باقاعدگی سے ادا کرتا تھا پولیس کا بھتہ، مختلف پارٹیوں کا بھتہ الگ دیتا تھا، پھر اچانک اسے کیا ہوگیا تھا مگر لالا فرید اس کی بھی بات نہیں مان رہا تھا۔
دیکھ بابے جمیل اگست تک کا ٹائم دے رہا ہوں اس مہنے کے بعد یہ جگہ خالی کردینا،مگر بیٹا میری بات تو سنو تم کیوں مجھے یہاں سے ہٹا رہے ہو جبکہ میں نے کبھی ناغہ نہیں کیا ،پیسے دینے میں ۔بابے جمیلے نے انتہائی پریشانی سے اسے دیکھ کر کہا۔
بس کہہ دیا تو کہہ دیا، یہ جگہ خالی چاہیے، عید آنے والی ہے فقیروں کی کھیپ تیار ہے، ٹرک کے ٹرک آئیں گے ایک کو ادھر بٹھانا ہے، اوپر سے آڈر ہے اب زیادہ دماغ مت کھا کسی اور طرف اپنی دکان سجانا۔
بابے جمیلے نے اس کی بات سن کر چپ سادھ لی ،اگست کا مہینہ آ تو گیا مگر بابا جمیل کے ٹھیلے پر وہ رونق نہیں تھی پرانے گاہک بھی آکر مایوس ہورہے تھے کیونکہ اس کے پاس نیا سامان نہیں ہے۔
گیارہ اگست کو بابے جمیلے کو صبح سے اپنی ماں یاد آرہی تھی، جو اسے بچپن میں جب بھی بھنے چنے دیتی تو کہتی یاد رکھنا بیٹے تیرے باپ دادا نے جو اور چنے پھانک پھانک کر وہ دن گزارے تھے، جب لٹے پٹے آزادی کے قافلے میں شامل ہوئے تھے اس لیےبابے جمیل کو رزق کی قدر کرنا بخوبی آتا تھا اور اس نے اپنے بچوں کو بھی سکھایا تھا۔ 12 اگست کو بابے جمیلے کو اپنی دادی کا سبز دوپٹا یاد آجاتا ،جسے انھوں نے پھاڑ کر پرچم بنایا تھا، ہر سال بابے جمیلے کے یہ دن ایسے ہی اداس گزرتے مگر پھر وہ خود کو سمجھالیتا کہ یہ قربانی رائیگاں تو نہیں گئی تھی آزادی بھی تو ملی، جہاں وہ اپنے کمزور پھیپھڑوں میں خوب جان لگا کر کہتا:
لے کر رہیں گے پاکستان
بٹ کر رہے گا ہندوستان
ہندوستان سے بٹوارا عظیم قائد اور لوگوں کی جاں گسل قربانیوں سے ہوا تھا، جس میں اس کے خاندان کے لوگ بھی شامل تھے ،وہ ان کے لیے بھی اداس ہوتا تھا، مگر اس سال 12 اگست کی شام سے بابے جمیلے کی اداسی حد سے سوا تھی شوکت نے بھی اسے سمجھایا کہ وہ دل چھوٹا نہ کرے اور اپنا مال اچھی طرح بیچے، یوں بے دلی کے ساتھ نہیں مگر وہ خوش نہیں تھا، خریدار خوشی سے سبز پرچم لے رہے تھے ،چھوٹے بچوں کی خوشی دیدنی تھی، گاڑیوں پر ملی نغموں کی آوازیں ایک الگ ہی سماں بندھ گیا تھا، بس دو دن کی چاندنی تھی پھر تو کسی نے یہ بھی یہ مال نہیں خریدنا تھا۔ ان ہی گہماگہمی میں ایک گاڑی آکر رکی ،شور شرابے میں سب مصروف تھے ،کسی نے جھنڈا لہرایا چند منچلے لڑکوں نے سڑک پر ہی ناچنا شروع کردیا۔ بابے کے لیے یہ منظر نیا تو نہیں تھا ،مگر تکلیف دہ ضرور ہوتا تھا مگر وہ پھیکی ہنسی کے ساتھ چپ ہی رہتا ،اسی گاڑی سے ایک جوان بچی کو جدید مغربی طرز کے کپڑوں سے نکلتے دیکھا گاڑی میں لگا ملی نغمہ بدل کر دشمن ملک کا تھرکتا گانا کیا لگا سب نے مل کر ناچنا شروع کردیا، جس وہ لڑکی بھی شامل تھی کچھ لوگ تالیاں بجا رہے تھے کچھ اس منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
بابے جمیلے کی آنکھوں میں پانی بھر آیا، اس نے شرم سے نظریں جھکا لیں، وہ شیطانی ریلا تو آگے بہ گیا مگر بابے جمیلے کا دل کٹ گیا تھا، آج کی نسل وطن اور دشمن کا فرق مٹا رہی تھی ،جس پرچم کے لیے وطن کی ماؤں بہنوں بیٹیوں نے اپنی عزت وعصمت پچانے کے لیےجانیں دی تھیں، اسی پرچم کے نیچے آج کی بیٹیاں نیم برہنہ تھیں، ملی نغمے پرانے ہوگئے اور دشمن ملک کے گانوں نے بارود کا کام کر دیا تھا ۔یہ تبدیلی تو وہ کچھ سالوں سے دیکھ دیکھ کر ڈرنے لگا تھا کہ اس نسل کو آزادی منانے کا شعور بھی نہیں ہے، وہ کس سمت جا رہے ہیں، وہ بہت کڑھنے لگا تھا، اکثر شوکت سے بھی کہتا کہ اس نسل کو آزادی کا مطلب معلوم نہیں ،انہوں نے قدر نہیں جانی۔ بابے جمیلے کو اس جگہ کھڑے رہنا دشوار لگ رہا تھا اسے لگا، اب وہ یہاں نہیں رہ سکے گا، جس جگہ اس نے ہمیشہ اپنے وطن کے نغمے گنگنائے تھے وہاں غیروں کی بولیاں اس کا سینہ چھلنی کر رہی تھیں۔
اگلی صبح سب نے دیکھا کہ موسمی ٹھیلہ لگانے والے بابے جمیلے کی جگہ خالی تھی۔