یہ سارا اہتمام اس لئے بھی ہوتا تھا کہ ابا کو کھچڑی سے عشق تھا۔ ان کے سناۓ ہوۓ قصوں سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ان کے بچپن کا پہلا پہلا پیار کھچڑی ہی تھا اور اماں دوسرے نمبر پہ آتی تھیں۔ ابا دوپہر کو ہلکا پھلکا کھاتے تھے اور وہ ہلکا پھلکا اکثر کھچڑی ہوتا تھا جس کا حل میں نے یہ نکالا تھا کہ ان کو بگھار لگا کر دے دیتی تھی، جسے وہ بڑےشوق سے کھاتے تھے

تحریر :شازیہ مقصود
انتخاب : فریحہ معراج


ہفتہ اور کھچڑی لازم و ملزوم تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی اس روٹین میں کوئی ناغہ ہوا ہو، اماں کھچڑی کو بہت اہتمام سے پکاتیں۔ بقول ان کے کھچڑی کا مزہ جب ہی آتا ہے جب وہ بہت اچھی طرح گھوٹی ہوئی ہو۔ اس کے اوپر پیاز اور کھڑی لال مرچ کا بگھار لگاتیں، تب ہی ان کی کھچڑی مکمل ہوتی اور میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ یہ کھڑی لال مرچ کا بگھار کیوں؟ زیادہ تر بلکہ سب لوگ اس مرچ کو پلیٹ کے ایک طرف کر دیتے ہیں۔۔ کھچڑی کے لوازمات کی ساری تیاری اماں ہم بہنوں سے کرواتیں۔ کھچڑی ،اصلی گھی میں پیاز کا تڑکا، آلو کا بھرتا ،ٹماٹر کی چٹنی، کیری کی چٹنی، لہسن کے ساتھ سبز مرچ اور سرخ مرچ کا الگ الگ کوچہ، پودینے اور املی کی چٹنی، ترنجہ، نمکی اور آم کا اچار۔ یہ سارے لوازمات ضروری تھے ورنہ ان کے بغیر کھچڑی ادھوری تصور کی جاتی۔ جب دسترخوان سجتا تو گویا بہار آ جاتی اور کھچڑی کی پلیٹ میں سب لوازمات تھوڑے تھوڑے ڈالے جاتے اور کیا کمال کی بات ہے کہ کھچڑی ہر چیز کے ساتھ الگ لطف دیتی۔ اماں یہ ساری چٹنیاں اور کوچے سل پہ پیستیں اور ہم سے بھی یہی کہتیں کہ جو مزہ سل پہ پسی چیزوں کا ہے وہ گرائنڈر میں کہاں۔۔

مجھے بھی کھچڑی پسند ہے لیکن ان سارے لوازمات کی تیاری کوفت میں مبتلا کرتی تھی۔ اماں آج کچھ اور پکا لیں ،میں ہمیشہ ہفتے کے دن ان کو مشورہ دیتی اور وہ خاموشی سے دال چنتی رہتیں۔۔ اف اماں یہ الگ سےگھی تیار کرنے کی بھلا کیا تُک ہے۔ ابا کا کولسٹرول ویسے ہی اتنا ہائی رہتا ہے اور یہ مرچ کا کوچہ کھانے کا کوئی جواز ہے، السر ہو جاتا ہے چھوٹی بہن اماں کو ہولاتی ۔۔ آلو کابھرتا، اس کی کیا ضرورت ہے اپنی شوگر کہاں پہنچائیں گی۔۔ اور یہ اچار وغیرہ سے کتنی ایسیڈیٹی ہوتی ہے، میں اس میں مزید تڑکا لگاتی۔۔ لیکن ہمیں بھی معلوم تھا کہ یہ ہر ہفتے کے دن کی ساری بحث بے کارہے کیونکہ کھچڑی تو پورے اہتمام سے بنے گی سونے پہ سہاگہ اماں نے گھر میں آم کا میٹھا اور نمکین اچار بنا ڈالا تو ابا کیوں پیچھے رہتے، اگلے ہی دن پورے اہتمام سے نمکی بنانے کو رکھ دی اورلگے ہاتھ سرکے میں مرچیں اور لیموں بنانے کو رکھ دیا۔ اماں کچھ رہ تو نہیں گیا چھوٹی نے معصوم سی شکل بنا کر اماں سے پوچھا تھا ،کیونکہ گیلری میں بیام اور شیشے کی بوتلوں کی بہار تھی جو اماں ابا کے سگھڑاپے کی منہ بولتی تصویر تھے۔

یہ سارا اہتمام اس لئے بھی ہوتا تھا کہ ابا کو کھچڑی سے عشق تھا۔ ان کے سناۓ ہوۓ قصوں سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ان کے بچپن کا پہلا پہلا پیار کھچڑی ہی تھا اور اماں دوسرے نمبر پہ آتی تھیں۔ ابا دوپہر کو ہلکا پھلکا کھاتے تھے اور وہ ہلکا پھلکا اکثر کھچڑی ہوتا تھا جس کا حل میں نے یہ نکالا تھا کہ ان کو بگھار لگا کر دے دیتی تھی، جسے وہ بڑےشوق سے کھاتے تھے کیونکہ ان کو پتہ ہوتا تھا کہ ہفتے کے دن آندھی چلے یا طوفان آۓ ان کی زوجہ محترمہ ان کو پورے اہتمام اور تمام لوازمات کے ساتھ کھچڑی پیش کریں گی۔ بقول چھوٹی کے ابا کا بس چلے تو شادی کے کھانے کا مینو بھی کھچڑی رکھ لیتے ۔۔ ہو تو سکتا تھا۔ میں ہنس کر کہتی۔ ایک بار تو ابا نے واقعی اپنے دوست کو کھچڑی کی دعوت پہ بلا لیا تھا انہوں نے اتنے مزے کے لوازمات بنانے پہ ہم دونوں بہنوں کو سو سو روپے انعام دیا تھا تب واقعی بہت مزہ آیا تھا۔۔

اور اب ۔۔۔۔۔ اب تووہ ہفتے کے دن ناشتے کی میز پہ کھچڑی سے متلق نوک جھونک وہ رونق سب خواب و خیال ہو گئیں۔ ابا کھچڑی کے لوازمات کی وہ ساری رنگینی وہ دستر خوان کی رونق اپنے ساتھ ہی لے گئے۔۔ واہ نیک بخت مزہ آگیا ابا کا وہ تعریفی جملہ جسے اماں مسکراتے ہوۓ وصول کرتی تھیں۔ اب تو ہفتے کو کھچڑی پکے یا کھچڑا اماں کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اب بھی خاموشی سے دال چن دیتی ہیں۔ چھوٹی سارے لوازمات بہت دل لگا کر بناتی ہے اور رہ گئی میں تو اب مجھے کھچڑی سے عشق ہو گیا ہے میں پورے اہتمام کے ساتھ کھچڑی بناتی اور کھاتی ہوں کیونکہ میرے ابا کو کھچڑی بہت پسند تھی اور اب میں دنیا کو ابا کی آنکھوں سے دیکھتی ہوں۔۔۔۔