ہر دل عزیز شاعر احمد کی فراز کی یادیں احمد فراز کی مادری زبان ”پشتو “ تھی۔ ان کے والد ماجد سید محمد شاہ فارسی کے ممتاز شعراء میں شمار ہوتے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ریاضی و سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھے۔ مگر برخودار ادب وشاعری کی خوبیوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ادبی ذوق و شوق رکھتے تھے۔

مومنہ حنیف۔ گجرات

اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
ملک پاکستان کے معروف وایورڈ یافتہ شاعر ”احمد فراز “ کو مداحوں سے بچھڑے 15 برس بیت گئے۔ 12جنوری 1931ء کوہاٹ کے معزز ترین گھرانے میں احمد شاہ کی پیدائش ہوئی۔ احمد شاہ سے احمد فراز کے نام کا یہ سفر فیض احمد فیض کے گراں قدر مشورے سے ہوا اور یوں رومانوی شاعری کی بنیاد فیض صاحب جیسے نفیس القدر و انقلابی شاعر کے دستِ شفقت سے بنی۔

اُردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر احمد فرازؔ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔
احمد فراز کی مشہور غزل قارئین کرام کے ذوق کی نظر
سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہُنر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں
پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز کی مادری زبان ”پشتو “ تھی۔ ان کے والد ماجد سید محمد شاہ فارسی کے ممتاز شعراء میں شمار ہوتے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ریاضی و سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھے۔ مگر برخودار ادب وشاعری کی خوبیوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ادبی ذوق و شوق رکھتے تھے۔

گریجویشن کے دوران رومانوی طالب علم بن کر ابھرے۔ اور اپنے پہلے رومانوی شاعری کے مجموعہ ”تنہا تنہا“ کے منظرِ عام پر آتے ہی نوجوان دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہوگئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ " درد آشوب " چھپا جس کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے " آدم جی ادبی ایوارڈ " سے نوازا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔ 1989ء سے 1990ء چیرمین اکادمی پاکستان، 1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک " نیشنل بک فاؤنڈیشن" کے سربراہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "نیشنل بک فاؤنڈیشن" کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔

احمد فراز نے 1966ء میں "آدم جی ادبی ایوارڈ" اور 1990ء میں "اباسین ایوارڈ" حاصل کیا۔ 1988ء میں انہیں بھارت میں ”فراق گورکھ پوری ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جبکہ بھارت میں انہیں 1992ء میں "ٹاٹا ایوارڈ" ملا۔

2004ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ”ہلال امتیاز“ سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔

احمد فراز نے متعدد ممالک کے دورے کیے۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "احمد فراز کی غزل" ہے۔ بہاولپور میں بھی "احمد فراز۔ فن اور شخصیت" کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔

ان کی شاعری کے انگریزی ، فرانسیسی ، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی زبان میں تراجم ہوچکے ہیں۔ شاعرانہ ورثہ اور حرفِ محبت احمد فراز کے شاعرانہ ورثے میں ”جاناں جاناں“ ، ”خواب گل پریشاں ہے“، ”غزل بہانہ کرو“ ، ”درد آشوب“ ،”تنہا تنہا“ ، ”نایافت“ ،”نابینا شہر میں آئینہ“ ، ”بے آواز گلی کوچوں میں“ ، ”پس انداز موسم“ ، ”شب خون“ ، ”بودلک“، ”یہ سب میری آوازیں ہیں“ ، ”میرے خواب ریزہ ریزہ“، ”اے عشق جفا پیشہ“ وغیرہ جیسی کتابیں شامل ہیں۔ مکمل شعری میراث ’’شہرِ سخن آراستہ ہے‘‘ کے دیباچے ’حرف محبت‘ میں لکھتے ہیں، ’’مجھے اپنے بارے میں یا اپنی شاعری کے بارے میں نہ کوئی زعم ہے، نہ دعویٰ ہے۔ ایک بات ضرور ہے، میرے پڑھنے والوں نے مجھے ہمیشہ محبت دی۔“

25 اگست 2008ء کو احمد فراز اسلام آباد میں وفات پا گئے۔ احمد فراز اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں مدفون ہیں۔

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں