محترمہ انیس سید

چاہت سے تم بلاؤ تو ہم کیوں نہ آئیں گے
تکے کباب ہم کو کھلاؤ تو کیوں نہ آئیں گے


آئیں گی ساری سکھیاں لیے ہاتھ میں گلاب
اتنی محبتیں ہوں تو ہم کیوں نہ آئیں گے



سادہ سے کھانے کھا کے بہت تھک گئے ہیں ہم
برگر ہو ساتھ پیزا بھی تو کیوں نہ آئیں گے


مہندی لگا کے ہاتھ پہ بیٹھے ہیں کل سے ہم
لاؤگی چوڑیاں تو پھر ہم کیوں نہ آئیں گے


رنگیں لباس پہن کے آئیں گی تتلیاں
ہم بھی غرارہ پہن کر پھر کیوں نہ آئیں گے


کشتی کی سیر ہو یا سمندر پہ جاؤ تم
مارے خوشی کے چپو لیے ہم بھی آئیں گے


لاؤ گلاب جامنیں یا کھیر تھال میں
جھومیں گے ہم خوشی سے لپک کر ہم آئیں گے


ہوجائے بیت بازی ذرا سوچیے گا آپ
اور گیت گنگناتے ہوئے ہم بھی آئیں گے


پیاری سہیلی کیا ہوا گر دور ہیں جو ہم
جو آپ نے بلایا تو پھر کیوں نہ آئیں گے
ہم دل کی آنکھ کھول کے ملتے ہیں سبھی سے
آئے گا ایک دن کہ حقیقت میں آئیں گے