عائشہ کفایت اللہ اٹک
علی،آمنہ ،عائشہ،حارث اور احمد روزانہ رات کو دادا جان سے کہانی سنتے تھے ۔آج بھی وہ دادا جان کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ نماز پڑھ کر آئیں اور ہمیں کہانی سنائیں ۔تھوڑی دیر بعد دادا جان کمرے میں داخل ہوئے اور بچوں نے سلام کیا ۔

دادا جان آپ آج ہمیں کون سی کہانی سنانے والے ہیں ؟"ننھے علی نے پوچھا"۔
آج میں آپ کو مینار پاکستان کے بارے میں بتاؤں گا تاکہ آپ کی معلومات میں اضافہ ہو۔ پیارے بچو! مینار پاکستان ،1940کی قراداد لاہور کی یاد میں تعمیر کیا گیا ۔22سے24 مارچ 1940،کو لاہور کے منٹو پارک میں بانی پاکستان "قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ"کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں (27) اجلاس ہوا تھا۔جس میں"قرارداد لاہور"منظور کی گئی تھی ۔جسے بعد میں "قرارداد پاکستان"کا نام دیا گیا تھا۔اس قرارداد میں ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی اور خودمختاری کو مسلم لیگ کی سیاسی جدو جہد کا نصب العین قرار دیا گیا تھا ۔اسی قراداد لاہور کی یاد میں "مینار پاکستان"تعمیر کیا گیا تھا ۔
مینار پاکستان کی تعمیر میں استعمال ہونے والا تمام سامان پاکستان میں دستیاب تھا۔سنگ مر مر کے پتھر ،ضلع ہزارہ اور سوات سے منگوائے گئے ۔مینار کی بلندی 196فٹ اور 79 میٹر ہے۔180فٹ تک مینار کا حصہ "لوہے اور کنکریٹ"سے بنا ہوا تھا ۔چوٹی پر ساڑھے سولہ فٹ "سٹین لیس سٹیل کا گنبد"نصب ہے۔جس سے روشنی منعکس ہو کر ہر سو کرنیں بکھیرتی ہے ۔مینار کی 5گیلریاں اور 20 منزلیں ہیں۔مینار پر چڑھنے کیلئے 334سیڑھیاں ہیں جبکہ لفٹ کی سہولت موجود ہے ۔پانچویں منزل میں دو ہلالی چاند کے درمیان ستارے کے پانچ کونے،دین اسلام کے پانچ ارکان کو ظاہر کرتے ہیں ۔مینار پاکستان کا ڈیزائن ایسا ہے جیسے پھول اپنی پتیاں کھولے ہوئے ہو۔
مینار پاکستان کے نچلے حصے پر سنگ مر مر کے 7فٹ لمبی اور 2 فٹ چوڑی "19 تختیاں"نصب ہیں۔جن پر خط کوفی میں آیات قرآنی ،99اسمائے حسنہ ،پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ ،قومی ترانہ،قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر سے اقتباسات ،علامہ محمد اقبال کی نظم "خودی کا سرِ نہاں لا الہ الاللہ"وغیرہ وغیرہ ۔
مینار پاکستان کے سائے تلے قومی ترانے کے خالق "حفیظ جالندھری"آسودہ خاک ہیں ۔ پنجاب حکومت نے 2015 میں اس پارک کو 25ایکڑ رقبے تک وسعت دی،اور اس پر ایک ارب روپے کی خطیر رقم سے تزئین و آرائش کا آغاز کیا ۔علامہ محمد اقبال کے مزار کو پارک کی حدود میں شامل کر کے اسے "گریٹر اقبال پارک" کا نام دیا گیا ۔ جی تو بچوں آج کی کہانی کیسی لگی ؟دادا جان نے پوچھا ؛
احمد نے کہا ؛دادا جان بہت اچھی کہانی تھی ۔اس سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا اور بہت کچھ سیکھا جس کے بارے میں علم نہیں تھا۔
عائشہ ؛دادا جان ،بہت اچھی کہانی تھی ۔میں یہ کل سکول میں اپنی دوستوں کو بھی بتاؤں گی ۔ان شاءاللہ ۔ دادا جان ؛چلو بچو!آپ سب اپنے کمرے میں جاؤ اور سو جاؤ ۔رات بہت ہوگئ ہے ۔صبح اسکول جانا ہے آپ لوگوں نے ۔شب بخیر۔
سب بچوں نے دادا جان کو شب بخیر کہا اور سونے چلے گئے۔ اسی طرح ہماری کہانی کا اختتام ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو سلامت رکھے اور دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین