ائے بیٹا،، ہم نے تو جوتے ہی دیکھے ساری زندگی بہت بہت سنا تو جوگرز ہوگئے اب تو لانگ بوٹس الگ ہیں تو کٹ شوز الگ کوئی اسنیکرز ہیں تو کوئی کروکس لو بھلا پلاسٹک کی بند چپلیں نام بدلنے سے فیشن والی ہوگئیں ایڑی والی جوتی ہی اچھی تھی اب تو ہائی ہیل ہے تو کوئی پینسل ہیل، فلیٹ ہے کوئی تو پمپیاں جو اب پمپس بن گئیں،،

عظمیٰ ظفر

  شیشے کی دکان کے اندر جوتوں کی قطاریں تھیں، ہم نے باہر شیشے کی دیوار پر منہ قریب کرکے مزید دیکھا تو کھڑی ناک شیشے کی سطح سے چپک گئی، چیں،،،،، کی آواز کے ساتھ ناک کھنچتی ہوئی نیچے آئی تو خیال آیا کہ لوگ دیکھ رہے ہوں گے کیا کہیں گے؟

خیر لوگوں کی پروابھی کسے تھی ،ہم نے منہ کے بگڑے زاویے ٹھیک کیے اور دکان کے اندر داخل ہوئے، لاکھ دکان کے شیشے پر پل(pull) لکھا ہو ہم پش(push) ہی کرتے ہیں، کھل تو ایسے بھی جاتا ہے پھر لکھتے کیوں ہیں وجہ سمجھ نہیں آتی۔

”ائے لڑکے“

ہم نے ایک عجیب حلیے میں موجود لڑکے کو دکان دار سمجھ کر پکارا، جس کے سر پر پی کیپ الٹی تھی. جھالر کی طرح بال آگے گرے ہوئے تھے، لال رنگ کی بنیان اور پھٹی جینز کے فل چڈا اور کپڑے کے پیلے جوتے پہنے ہوئے تھا۔

”ائے سن بیٹا،، یہ لال جوتی تو پکڑایو،، میری پوتی کے ناپ کی لگتی ہے. “

 اس لڑکے نے ہماری طرف ناگواری سے دیکھا،

”میں سیلز مین نہیں ہوںآنٹی“

یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔

ہم نے اسے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کالے رنگ کا چشمہ اس کی لال بنیان پر گردن کے پیچھے اٹکا ہوا تھا،

”لو بھلا بتاؤ، چشمہ آنکھوں پر لگاتے ہیں ناکہ گردن پر“

ہماری یہ بڑبڑاہٹ دوسرے بندے نے سن لی،

”جی میم،، آپ کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟“

انتہائی مہذب نیلے رنگ کی قمیص کالے رنگ کی پتلون اور سرمئی رنگ سے میل کھاتی ٹائی لگائے ایک لڑکے نے ہم سے ایسے پوچھا کہ جیسے ہم جوتوں کی دکان پر نہیں لنڈے کے کپڑوں سے اپنے مطلوبہ کشن کا کور لینے آئے ہوں کمبخت نینا کی پرشین بلی نے اچھے خاصے کشن کے نرم اون کے بنے پھولوں کو سوتن سمجھ لیا تھا ،نوچ نوچ کر اس کی حالت بلدیہ جیسی کردی تھی.

”ماں جی آپ پسند کریں کون سے جوتے نکالوں، " اس نے پھر سے کہا، دوسرے کلائنٹ بھی کھڑے ہیں ورنہ میں ان کو دیکھوں.

”یار تم دوسرے کلائنٹ دیکھنا یہ ماں جی پھر آگئیں“

اس نے اسی پیلے جوتے والے کی طرف دوسرے شخص کو بھیج دیا جو اب سفید رنگ کا چمچماتا جوتا اٹھا کر دیکھ رہا تھا۔

ہمیں یوں گم سم دیکھ کر شاید وہ سمجھا کہ ہم غائب الدماغ ہیں جو سبزی لیتے لیتے یہاں آن پہنچے ہوں۔

”لو بھلا اب ایسے بندے کو دیکھ کر کسے لگے گا کہ یہ سیلز مین ہے؟

ائے بیٹا ہم تو اسے تم سمجھے،، اور جو تمہیں سمجھے وہ وہ نکلا. “

”جی،،،، آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ کے ساتھ اور کون آیا ہے

کیا آپ اکیلی شاپنگ کررہی ہیں؟“ اس نے باہر دیکھتے ہوئے کہا،

اب ظاہر ہے وہ ہمارے حلیے سے دیکھ کر ہمیں دکان سے باہر تو نہیں نکال سکتا تھا، انتہائی مہذب جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا جو پچھلے سال ہی زیبا  لاہور سے لائی تھی رپلیکا بھی نہیں تھا، اوریجنل تھا البتہ پچھلے چار دن سے ہم یہی جوڑا پہنے ہوئے تھے۔

”ہاں ہاں بیٹے ہم اکیلے ہیں یہ لال والی جوتی دکھائیو“ ہم نے اس طرف اشارہ کیا،

"لال جوتی،، یہ ریڈ پمپس"

 اس نے ریڈ پمپس پر زور دیا

”آپ کے سائز کا دکھاوں؟ “

"ہاں بیٹا ریڈ پمپس ہی دکھادو،

اب جوتیوں کے نام بھی

بدل گئے ہیں، اچھی بھلی لال جوتی ہے.

 اب تو طرح طرح کےنام سننے میں آتے ہیں ہم نے ذہن پر زور ڈالا!! کیا تو لایا تھا شیری، عید پر؟

 ”ہاں!! یاد آیا لوفرز،،

اب بھلابتاؤ شریفوں کے پہنے والے جوتے اور لوفرز توبہ توبہ،،، ہمارے کلے پیٹنے پر وہ لڑکا اپنی مسکراہٹ چھپانے لگا.

٭٭٭٭٭

"ائے بیٹا،، ہم نے تو جوتے ہی دیکھے ساری زندگی بہت بہت سنا تو جوگرز ہوگئے اب تو لانگ بوٹس الگ ہیں تو کٹ شوز الگ کوئی اسنیکرز ہیں تو کوئی کروکس لو بھلا پلاسٹک کی بند چپلیں نام بدلنے سے فیشن والی ہوگئیں.

ایڑی والی جوتی ہی اچھی تھی اب تو ہائی ہیل ہے تو کوئی پینسل ہیل، فلیٹ ہے کوئی تو پمپیاں جو اب پمپس بن گئیں،،"

”بیڑا غرق ہو ان ناموں کا ہم پھر بڑبڑائے،،

اس نے جوتے باہر نکال کر رکھے

اتنا تیار ہو کر بھی بندہ سیلز مینری کرے۔ ایسا لگ رہا سسرال جا رہا ہے۔

"یہ لیں یہ بالکل آپ کےناپ کی ہے"اس نے ہمارے قدموں میں وہ جوڑی رکھ ڈالی.

”ہمارے ناپ کی،،،

 ائے میاں سٹھیا گئے ہو کیا اس عمر میں بڈھی گھوڑی لال لگام بناو گے،،"

 ہم تو سن کر ہی بدک گئے۔

”سات نمبر کی دکھاؤ ہم اپنی پوتی کے لیے لیں گے، ائے پتہ نہیں کتنی بڑی ہوگئی ہوگی، اتنی سی تھی جب امریکا چلے گئے وہ لوگ سالوں بیت گئے واپس ہی نہیں آتے۔"

وہ سوچ میں گم ہو گئیں.۔

”سات نمبر کی تو نہیں سوری!! ماں جی نو نمبر اور گیارہ نمبر کی ہے"

سیلز مین نے انھیں ٹالتے ہوئے کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اب یہ جانے والی ہیں پچھلے چار مہینے سے وہ اس دکان پر آکر مختلف جوتے دیکھتیں تھیں اور مخصوص ٹائم پر ان کا بیٹا انھیں لینے آجاتا جو باہر گاڑی میں بیٹھا یہ سب نظارا بے دلی دیکھ رہا ہوتا تھا۔

 ”نہیں ہے تو پھر رہنے دو،

پھر کبھی دیکھ لوں گی ابھی تو ویسے بھی دیر ہورہی ہمیں ڈاکڑ آنے والا ہوگا، ہم ذرا سا سٹھیا گئے ہیں تو کیا ہوا اب بچے سمجھتے ہیں کہ ہم اول فول بکتے ہیں دماغ کھسک  گیا ہے،

لو بھلا؟!! سارا دن کمرے میں پڑے پڑے دیواروں کو تکتے تکتے بندہ پاگل کیسے ہوسکتا ہے؟

”ہاں کھل گئی دکان"

انھوں حسب عادت شیشے پر ناک لگا کر باہر کی طرف دیکھا

اور  قریبی دماغی امراض کے کلینک کا نام بتایا پھر وہ جس دروازے کو دھکیلتی ہوئی آئیں تھیں اسے کھینچتی ہوئی چلی گئیں۔

اور ریڈ پمپس جوں کے توں پڑے رہے۔