تنزیلہ احمد

بچپن میں تو سبھی ننھے ہوتے ہیں۔۔۔ پر ظلم یہ ہوا کہ وہ صاحب تو بڑے ہو کر بھی ننھے رہے۔ زمانے کی ریت ہے کہ مرد بڑے ہو کر میاں بننے کا شرف حاصل کرتے ہیں مگر وہ تو پیدائشی میاں ٹھہرے۔۔۔ ہائے بے چارے ننھے میاں۔۔۔! 

ان کے خاندان میں مردوں کے نام کے آخر میں "میاں" کا دم چھلا لگانے کا رواج تھا۔ ننھے میاں کے ابا 'شوکت میاں' اپنے والدین کے ایک ہی ایک بیٹے تھے۔ شرافت، اثر و رسوخ، زمینیں جائیدادیں غرض کہ سب کچھ تھا مگر مردوں کا کال تھا۔ شاید تبھی انھیں بیٹے کی شدید ترین خواہش رہی اور اس ناتمام خواہش کی تکمیل کی سعی لاحاصل میں بیٹیوں کی سیدھی لائن ٹیڑھی میڑھی لگتی چلی گئی۔ پر بھلا ہو قسمت کی مہربانی کا کہ در در پر مانی گئی منتیں، صدقے اور چڑھاوے، ننھے کی صورت بر آئے۔

 ننھے میاں کا اصل نام "شمیم میاں" تھا۔ ساری زندگی انھیں یہ قلق ستاتا رہا کہ کاش اماں ابا نے سات بیٹیوں کے بعد پیدائش کا شرف بخشنے والے خوش قسمت کاکے کا نام تو کوئی مردانہ قسم کا رکھا ہوتا۔ ان کا ننھا سا دل چیخ چیخ کر کہتا کہ اگر نام دَم دار ہوتا تو ان کی شخصیت کے جاہ و جلال کا قصہ زیادہ سے زیادہ سات گھروں تک تو سنایا جاتا۔ سات بھائیوں کی لاڈلی بہن کو زمانہ ست بھرائی کہتا ہے مگر وہ تو خود کو ست بہنائی بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس سے زنانہ قسم کی کیفیت طاری ہونے لگتی تھی۔ 

وسیع و عریض حویلی کا صحن لڑکیوں سے بھرا پرا تھا۔ اوپر تلے کی ساتوں بہنیں دھنک رنگ آنچل لہراتے جنگلی ہرنی کی طرح سارا دن کلانچیں بھرتیں۔ اور ان کی دیکھا دیکھی منے سے ننھے میاں بھی اپنے کھلے ڈُھلے دھاری دار کچھے کا کونا تھامے یوں لہراتے پھرتے کہ دیکھنے والی گناہ گار آنکھوں کو یہ محسوس ہوتا کہ کوئی منحنی سا وجود ہوا کے سنگ ایسے اڑ رہا ہو جیسے آندھی میں خالی مومی لفافہ۔۔۔ 

پتا نہیں کون سی بدبخت گھڑی تھی جب انھیں ننھے میاں پکارا جانے لگا۔ تاریخ کے سیاہ پنوں سے اماں کی مصدقہ معلومات کے مطابق "ننھے میاں" والا عمر بھر کا بٹہ لگانے والا گناہ دادی اور پھوپھی سے سرزد ہوا تھا۔ ادھر عمر رسیدہ پوپلے منہ والی دائی نے ہانک لگائی "ارے شوکت میاں مبارک ہوں، منا آیا ہے۔" ادھر تسبیح کے دانے گراتی دادی اور پھوپھی کرنٹ کھا کر پلنگ سے اٹھیں اور آن کی آن میں زچہ بچہ کے پاس جا پہنچیں۔ نومولود کو دیکھتے ہی جی دار دادی کمزور دل تھام کر رہ گئیں "ہائے اتنا ننھا سا منا۔۔۔"

"ہائے اماں دیکھو تو اس کا رنگ کتنا سڑا ہوا ہے۔ بیٹیاں تو خوب صاف رنگت کی اور صحت مند پیدا ہوئیں مگر اللہ اللہ کر کے لڑکا ہوا بھی تو بلی کے خواب میں چھیچھڑوں جیسا۔۔۔" پھوپھی کی دہائی پر اماں انھیں پھپھے کٹنی گردان کر زخمی ناگن کی طرح بل کھا کر رہ گئی تھیں۔

پھوپھی کی پٹاری سے نکلنے والی غیر مصدقہ یاداشت یہ تھی کہ ننھے کی اماں نے ہی جب اس کے ناتواں وجود پر پہلی نظر ڈالی تو دہائی دی "ہائے قسمت میں گر منا تھا تو اتنا ننھا سا تو نہ ہوتا۔۔۔"

وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔۔۔ ذرا سا قد نکالنے پر وہ اپنی مرضی کا کچھ کرنے لگتے تو ٹوک دیا جاتا کہ ابھی تو ننھے ہو ایسے کاموں کو ساری عمر پڑی ہے۔ لیکن ابا کی مرضی کا کچھ ننھے میاں نہ کر پاتے تو فورا کھچائی ہوتی "میاں اب تم اتنے بھی ننھے نہیں رہے۔۔۔" 

جیسے سمجھدار لوگ جان بوجھ کر بسا اوقات ننھے بن جاتے ہیں ویسے ہی ننھے میاں بوقت ضرورت بڑے میاں بن جاتے۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی صدا کے مصداق ان کی بات سنی ہی نہ جاتی، ماننا تو درکنار۔  

جوانی کی دہلیز پر پہنچتے ہی ایک ایک کر کے ساتوں بہنیں پیا دیس اڑان بھرتی گئیں اور کشادہ صحن میں بوکھلائے بوکھلائے پھرنے کو ننھے میاں تنہا رہ گئے۔ ان کے کلاپے کا واحد حل اماں ابا کے ذہن میں ان کے پتلے سے لمبے چہرے پر سہرا سجانے کا آیا۔ ننھے میاں کی دلہن کی تلاش میں بہنیں پیش پیش رہیں۔ 

"ننھے میاں کے لیے کوئی ننھی ہی ڈھونڈیے گا۔" بڑے بہنوئی نے پان گٹکے سے اٹے دانت نکوستے ہوئے ایک بار کہا تو ننھے میاں انھیں دُزیدہ نگاہوں سے دیکھ کر بیچ و تاب کھاتے رہے۔ دور پاس کے رشتے داروں کی بہت سی لڑکیاں ناپسند کرنے کے بعد سب کی زیرک نگاہیں دوسرے گاؤں کی الہڑ مٹیارن پر جا ٹھہریں۔ گوری چٹی، سروقد دختر نیک اختر جسے دیکھتے ہی سب نے جھٹ سے ہاں کر ڈالی۔ ادھر لڑکی کے والدین بھی جانے مانے میاں خاندان میں بیٹی بیاہنے کو تیار بیٹھے نظر آئے۔   

ننھے میاں کے سہرے کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے جب انھیں لڑکی کا نام پتا چلا۔۔۔ اپنی ہونے والی دلہن کا نام سنتے ہی ننھے میاں اڑیل گھوڑی کی طرح بدکے مگر کتابت کی فاش غلطی تو سرزد ہو چکی تھی۔ 

ایک سہانی شام، بے دریغ قہقہے لٹاتی عورتوں کے جھرمٹ میں گھری "اختر بی بی" نے شمیم میاں کی منکوحہ کی حیثیت سے حویلی کی دہلیز پر قدم رنجا فرمائے۔   

"ارے بھئی لڑکیوں !پرے ہٹو۔۔۔ کیوں میرے ننھے کی دلھن کو ستا رہی ہو!" ساس نے بڑی بڑی آنکھوں اور لمبی چوٹی والی بہو کو نہارتے ہوئے بیٹیوں کو گھرکا۔  

"چلو، ننھی کو اس کے کمرے تک چھوڑ آؤ۔۔۔"

"ہائیں۔۔۔ ننھی کون؟" 

"ارے میری بہو ننھی۔۔۔۔ اپنے ننھے میاں کی دلہن"

ننھے میاں کا کچھ کہنے کے لیے کھلا منہ اماں کا جواب سننے کے بعد بند ہونا ہی بھول گیا۔ "ننھی" ننھے میاں کی نازک سماعتوں پر بہت گراں گزرا تھا۔ ایک تو اختر اوپر سے ننھی۔۔۔ قیامت سی قیامت تھی۔ پتا نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی جب کالی زبان، دانت اور منہ والے بڑے بہنوئی کی سنی گئی۔

نکاح کے طفیل آخر کار نام کے ننھے میاں اصل میں میاں بن چکے تھے۔ اختر بی بی دو جی سے ہوئیں تو ننھے میاں کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ جاگتی آنکھوں سے انھوں نے چنی چنی آنکھوں میں کتنے خواب سجا لیے تھے۔ انھوں نے دل ہی دل تہیہ کیا کہ اگر لڑکا پیدا ہوا تو اسے "ننھے" کے بھاری بھر کم خطاب سے نواز کر خود شمیم میاں کی حیثیت سے باقی کی ساری زندگی سر اٹھا کر فخر سے جیئیں  گے۔ 

وقت گزرتا گیا اور بالآخر نیک گھڑی آ گئی جس کا ننھے میاں کو شدت سے انتظار تھا۔ مگر جیسے ہی نومولود کے رونے کی آواز کے ساتھ خوشی سے لبریز ایک نسوانی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی تو ننھے میاں کے نئے نویلے ارمانوں پر منوں اوس پڑ گئی۔  

"ارے ماشاءاللہ۔۔۔۔ کتنا صحت مند اور خوب صورت منا پیدا ہوا ہے۔ بالکل شاہ زادوں جیسا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، سچ میں ہو بہو اپنی ماں پر گیا ہے۔ ارے کوئی ننھے میاں کو تو خبر دے۔۔۔" 

"واہ مولا تیری شان۔۔۔ جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اتنا پیارا بچہ۔۔۔ یہ تو ہمارا جان سے پیارا شاہ زادہ ہے۔ شاہ زادے میاں۔۔۔ ارے بھاگ کر کوئی ننھے میاں کو بلا لائے، خیر سے شاہ زادے میاں کے ابا جان بن گئے ہیں۔۔" 

مسرت سے چٹختی آوازیں گاہے بگاہے ننھے میاں کی تھکی سماعتوں پر دستک دیتی رہیں۔ 

اپنے ننھے منے کاکے کو "ننھے میاں" کا ناس پیٹا خطاب دینے کی نادان حسرت ننھے میاں کے دل میں کسمساتے ہوئی دم توڑ گئی تھی۔