ام محمد سلمان

گائے ایک ممالیہ جانور ہے اور عام طور پر اپنی برادری کے ساتھ سبزہ زاروں میں مٹر گشت کرتی پائی جاتی ہے۔ جب وہ چارہ کھاتی ہے تو اپنی تمام تر توجہ اسی طرف رکھتی ہے۔ اسے انسانوں کی طرح ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنے کا بالکل شوق نہیں۔ 

 ویسے تو دیکھنے میں گائے انتہائی دانش مند ، بردبار اور مہذب نظر آتی ہے۔ جب کسی چراگاہ میں چلتی ہے تو انتہائی وقار اور دبدبے کے ساتھ۔۔ لیکن جیسے ہی یہ شہری آبادی میں پہنچ کر سڑک پار کرنے لگتی ہے تو بس۔۔۔ یوں جھوم جھوم کر مستانی چال چلتی ہے گویا ملکہ الزبتھ کی جانشین بننے جا رہی ہو۔ اور تب تک اسی خمار میں رہتی ہے جب تک دونوں طرف کاٹریفک جام نہ ہو جائے۔ تب ایک شان بے نیازی سے خراماں خراماں چہل قدمی کرتے ہوئے کچے میں اتر جاتی ہے۔ جہاں اس کے جیسی پانچ دس اور کھڑی ہوتی ہیں۔

لیکن خیر اس کا تو ہمیں پکا یقین ہے وہ آں جہانی ملکہ کی جانشین بن کے چوری کے ہار، جھومر، ٹیکے پہننا بالکل پسند نہیں کرے گی اگرچہ شہزادہ چارلس کوہ نور ہیرا گائے کے سینگوں میں جڑوا دے۔ لیکن پھر بھی نہیں! آخر گائے کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے! وہ ہرگز اپنے آپ کو چور، ڈاکو اور غاصب کہلوانا گوارا نہیں کرے گی۔

  دیکھا جائے تو گائے ایک خوب صورت جانور ہے۔ انتہائی سادہ اور معصوم فطرت ۔ گھر کے جس کونے میں باندھ دو، وہیں خاموشی سے کھڑی رہتی ہے یا بیٹھ کر جگالی کرتی رہتی ہے۔   اسی لیے اکثر سیدھی سادی بھولی بھالی خواتین کو گائے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اور یقین جانیے گائے کو اس پر بالکل کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

ویسے تو اعتراض کا حق بے چاری کے پاس محفوظ ہے بھی نہیں لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ جن خواتین کو اللہ میاں کی گائے کہہ کر درجہِ انسانیت سے حیوانیت پر لایا جاتا ہے انھیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ بلکہ اس لقب پر کافی خوشی اور طمانیت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ہم نے تو اکثر یہی دیکھا ہے ۔ ذرا کہہ دو کہ ”ائے مہر النساء! تم تو ایمان سے بالکل اللّٰہ میاں کی گائے ہو“ اور پھر بی مہر النساء کے چہرے پر خوشی کی ست رنگی بہار دیکھو ۔۔۔ اور آنچل کی شامت کہ مروڑ مروڑ کر دانتوں میں دبائے چلے جانے سے اس کے سارے تانے بانوں کے کس بل نکل جاتے ہیں۔ مگر وہ بی مہر النساء ہی کیا جو گائے ہونے کے خمار سے باہر نکلیں ۔

خیر اب وہ باہر نکلیں یا نہ نکلیں یہ ان کی مرضی ۔ 

ہاں تو ہم بات کررہے تھے گائے کے حسنِ جہاں سوز کی۔ ماشاءاللہ کیا قدو قامت پائی ہے اور کیسا چھریرا بدن کہ بھینس دیکھے تو جل جل کے ہی مر جائے۔ اور کیا ہی چہرے کی حسین بناوٹ!  کیسی خوب صورت لمبی دم بالکل کسی ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی۔۔۔ (اب ناگن کو اعتراض نہ ہو جائے کہ صدیوں سے اچھی بھلی کسی حسینہ کی زلف گرہ گیر سے مشابہت چلتی آرہی تھی، لیکن آج اس موئی مصنفہ نے مجھے گائے کی دم سے ملا دیا ۔ )

خوبصورت تاج کی طرح سجے دونوں سینگ! ان کے بیچ میں فراخ صبیح پیشانی! سینگوں کے پہلو میں لٹکتے دو کان ۔۔۔ جو سینگوں کی خوب صورتی اور نمایاں کرتے ہیں ۔ اففف!  ہمیں شدید دکھ ہے کہ آج تک ان سینگوں پر کسی شاعر نے شاعری کیوں نہ کی۔ کیا تھا اگر دو چار مچلتے اچھلتے کودتے اشعار گائے کے سینگوں پر بھی کہہ دیے جاتے۔۔۔۔!

 کبھی گھاس چرتی گائے کے پاس جا کر کھڑے ہوئیے اور پیار سے گردن سہلائیے ۔۔۔پھر اس کا نظر اٹھانا دیکھیے ۔۔۔!

افففف۔۔۔ اس کی قاتل نظریں ۔۔۔۔ شاعر نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا

اس کی کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر سب

چاقو واقو، چھریاں وُریاں، خنجر ونجر سب

ظالم ایسے دل ربا انداز میں پلکیں اٹھاتی ہے کہ ایک بار تو انسان بے اختیار کہہ اٹھے ۔۔۔

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

جی چاہتا ہے ان مد بھرے نین کٹوروں میں دو چار غوطے لگا ہی لیے جائیں۔

تب ہمیں شاعر کا وہ شعر یاد آتا ہے

میر ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

ویسے تو گائے سر سے لے کر پاؤں تک فائدہ ہی فائدہ ہے۔ لیکن اس کا دودھ انتہائی صحت بخش، زود ہضم اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ اور دودھ سے نکلے مکھن کی تو بات ہی کیا ہے!  رہ گیا گوشت تو نہ جانے ہمارے یہاں اطباء کی فوج ظفر موج کو گائے کے گوشت سے کیا ازلی بیر ہے۔ جب تک گائے ایک معصوم بچھیا/بچھڑی کے روپ میں ہوتی ہے سب اس کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں اور جیسے ہی وہ ایک دو بچوں کو جنم دے کر اماں حضور کے عہدے پر تخت نشیں ہوتی ہے ویسے ہی اطباء کے عتاب کی چھری تلے آ جاتی ہے۔ فوراً اس کے گوشت میں زمانے بھر کے عیب نکال کر پابندی لگا دیتے ہیں کہ گائے کا گوشت مضر صحت ہے۔ تو جان لیجیے ہم نے خوب اچھی طرح تحقیق کر لی، گائے کا گوشت عام طور پر کسی نقصان کا باعث نہیں، اگر اعتدال سے کھایا جائے۔ ہاں خصوصی صورتیں مستثنیٰ ہیں۔

گائے ویسے تو پورا سال نوع انسانی کو گوشت فراہم کرتی ہے۔ لیکن خاص طور پر بقرعید کے دنوں میں بھی ان کا جم غفیر دیہات کے کھیت کھلیانوں اور میدانوں سے نکل کر شہری منڈیوں کا رخ کرتا ہے۔ جہاں ان کے مالکان منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ اور ہمیں وہ شعر پھر یاد آجاتا ہے ۔۔۔

تم نے جس گائے کو مقتل سے بچانا چاہا

آج وہ کوچہ بازار میں آ نکلی ہے

 دیکھا جائے تو گائے ایک پکی مومنہ ہے جو ہر لحاظ سے مسلمانوں کی خدمت کررہی ہے ۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر ہی دیکھ لیجیے۔۔ بے چارے سفید پوش لوگ جو قربانی کا شوق رکھتے ہیں مگر ایک منحنی سا بکرا خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی ایک چھوٹی موٹی گائے میں حصہ ڈال کے قربانی کے منصب کو پا لیتے ہیں۔

گائے میں ایک خوبی اور پائی جاتی ہے جس کے بارے میں شاید آج تک کسی نے سوچا نہ ہو ۔۔۔ اور وہ یہ کہ گائے ہمیشہ اپنے گائے ہونے پر مطمئن رہتی ہے۔ وہ کبھی نہیں کہتی کہ مجھے بیل کے برابر حقوق چاہییں۔ ویسے بھی گائے اس معاملے میں بہت سیانی ہے۔ وہ کولہو کے بیل والا محاورہ خوب جانتی ہے۔ اور کھیتوں میں ہل چلاتے بیل بھی اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں! اب کوئی عقل کی دشمن گائے کی دانشمندی سے سبق نہ سیکھے تو اس میں بے چاری گائے کا کیا قصور ۔ وہ تو مست مگن رہتی ہے اپنے مالک کے گھر میں کسی ایک کھونٹے سے بندھی، عزت سے چارہ کھاتی ہے اور دھڑلے سے پیر پسار کے سوتی ہے۔

کھونٹے سے یاد آیا کہ گائے ایک کونے میں ہی کھونٹے کے ساتھ بندھی رہنا پسند کرتی ہے۔ ہم نے اسے کبھی کھونٹے کے ساتھ زور آزمائی کرتے نہیں دیکھا۔ یوں لگتا ہے کھونٹا اور گائے ازل کے ساتھی ہیں جنھیں لاکھ کوشش کے باوجود جدا نہیں کیا جا سکتا ۔

ویسے تو گائے معصومہ نے اپنی پوری تاریخ میں صرف ایک بار ہی حضرت انسان سے شکوہ کیا تھا۔۔۔ جسے علامہ اقبال نے ایک بکری کی زبانی سمجھا بجھا کے شکر میں بدلوادیا تھا۔۔۔  تب سے اب تک گائے کی آنکھوں میں وہی پیار بھری اپنائیت کے جذبات نظر آتے ہیں۔ یقین جانیے گائے سے اچھا ہمدم و دمساز کوئی نہیں۔ گھر میں جگہ اور جیب میں گنجائش ہو تو آج ہی خرید لائیے۔