ندا اختر

وہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں سمیٹتے ہوئے کھڑی ہوگئ ۔ گرے رنگ کی فراک پر سلور کام کے ستارے جڑے تھے چاند سا چمکتا چہرہ بادلوں سے نکلتا جھلملاتا دکھائی دے رہا تھا ۔

مگر توجہ نہ ہونے پر اداسی میں بالوں کو لپیٹ کر وہ بالیاں اتارنے لگی ۔ سب کچھ بے معنی تھا اک ان کی توجہ کے بغیر ۔۔۔۔

جب وہ کڑے اتار رہی تھی تو چھپ چھپ کر دیکھ رہی تھی کہ کیا دیکھا ہے کسی نے اسکا یہ جچنا سجنا اور سنورنا اور دل میں کہتی رہی ۔۔

یہ عادت بار بار تمہیں دیکھنے کی 

 ۔ جانے کے بعد پھر لوٹنے کی ۔

تم میری زندگی کا بہت خوبصورت حصہ ہو ۔ اپنے خیالوں میں بار بار تمہیں سوچنے کی ۔  ۔

تم سے بچھڑ کر کہاں جاؤں گی میں   ۔۔ اور بچھڑ بھی گئی تو نہ مل پاؤں گی میں ۔

یہ کیسے ہے ممکن کسی کو چاہنا اور پھر جدائی   ۔۔

 سو بار اگر پوچھو تو ہر بار تمیں چاہوں گی  میں ۔

میں تمہاری ہوں تمہاری ہوں تمہاری رہوں گی ۔

جو نا تھاموں گے تو بکھر جاؤں میں ۔

کیوں کہ اب عادت ہے ہر بار تمہیں دیکھنے کی کہیں بھی جاکر وہیں لوٹنے کی ۔۔

محبت ہوتی ہی ایسی شے ہے کہ جہاں بھر میں کوئی اس جیسا دکھتا  ہی نہیں ۔

سنہری دھوپ میں سایہ کوئی تم سا ہی نہیں ۔ کیوں کی عادت ہے مجھے تھک کر تمہاری آغوش میں بیٹھنے کی   ۔۔

تمہیں دیکھ دیکھ کر بھرتا نہیں دل ۔۔

سوچتی ہوں پھر اک بار  دیکھوں شاید کہ تمہیں بھی   ہو عادت ہمیں دیکھنے کی ۔۔۔

پھر سوچنے پھر لوٹنے کی یادوں میں پھر سے مجھے سوچنے کی ۔۔