مہوش کرن

”بہت تھکن ہوگئی، پورا دن ہی لگ گیا۔“

”ہاں، بس یہی  دستورِ زمانہ ہے۔آج اُنہیں، کل ہمیں جانا ہے۔“

 

واپسی کا بقیہ سفر بالکل خاموشی سے گزرا حالاں کہ راستہ لمبا تھا لیکن سارا شور حِرا کے دل میں مچا تھا جیسے کوئی قیامت بپا ہو۔ 

 

٭٭٭٭٭

ایک بزرگ رشتے دار خاتون کا انتقال ہوگیا تھا۔ جنازے سے فارغ ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک وہیں رہے تھے کیوں کہ سسرال اور میکے دونوں طرف سے تعلق تھا۔  

 

صبح فون آیا تھا کہ نانی کا انتقال ہوگیا ہے۔ رشتہ دور کا تھا لیکن تعلق قریب کا۔ پورا خاندان اکٹھا تھا۔ کئی طرح کی باتیں تھیں۔ جب سب تدفین کے لیے چلے گئے تو ایک کزن نے آکر حِرا سے کہا:

 

”کیا بات ہے بھابھی، آپ کچھ اداس لگ رہی ہیں؟“

 

”نانی کا انتقال ہوا ہے، اداسی کی ہی بات ہے۔ میں کیا خوشیاں مناؤں؟“

 

”بس یہی بات ہے؟ آپ تو بھولی بن رہی ہیں۔ اچھا اچھا اس بات کے پیچھے اپنا دکھ چھپا رہی ہوں گی۔“

 

”تمھیں جو کہنا ہے کھل کر کہہ دو، پہیلیاں نہ بجھواؤ۔“ حرا نے الجھ کر کہا کیوں کہ وہ کزن عموماً کوئی نہ کوئی طنز ہر بار کیا کرتی تھی۔

 

”ارے حماد بھائی کی دوسری شادی کے لیے بڑی خالہ یعنی آپ کی ساس رشتے دیکھ رہی ہیں اور آپ بالکل انجان ہیں۔“ 

 

پتا نہیں وہ اور کیا کیا بول رہی تھی، مگر حرا کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اپنی ساس کے اکثر بولے جانے والے جملے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔

 

”اے میرے بیٹے کی قسمت میں تو بیٹا ہے ہی نہیں، تلے اوپر چار بیٹیاں وہ بھی اس مہنگائی کے دور میں اور اب تو کوئی اولاد ہونے کی امید بھی نہیں۔ ایسی بہو ملی ہے کہ چار آپریشن میں جسم فارغ ہوگیا۔ حرا بی بی کے مرنے کی نوبت آنے لگی تو ڈاکٹر نے سب خالی کردیا۔ 

میں تو اب حماد کے سر پر دوبارہ سہرے کے پھول سجاؤں گی پھر دیکھنا دوسری بیوی سے اس کے ضرور بیٹا ہوگا۔“

 

٭٭٭٭٭

 

پتا نہیں باقی وقت کیسے وہاں گزارا اور اب گھر واپس جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کیا یہ سچ مچ میرا گھر ہے؟

 

ہاں میرا ہی تو ہے، میں اپنی بچیوں اور شوہر کے ساتھ یہاں رہتی ہوں. چوں کہ پردے کی وجہ سے سب کے بیچ رہنا مشکل تھا تو حماد اسے لے کر الگ ہوگئے تھے۔ اور کسی نے برا بھی نہیں منایا تھا کیوں کہ باقی بیٹے اپنی دیگر وجوہ کی بنا پر علیحدہ رہتے تھے۔ ساس کے ساتھ ایک بیٹا یعنی اس کا دیور تھا۔ ساس کا آنا جانا ہر وقت ہی لگا رہتا تھا۔ کبھی کسی بیٹے کے پاس رہتیں، کبھی کسی اور بیٹے کے پاس ۔ 

 

حرا بھی اپنے طور پر ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی مگر وہ کبھی اس کے پردے سے چڑتیں، کبھی نمازوں کی پابندی سے، کبھی انہیں ذکر و اذکار سے الجھن ہوتی، کبھی بچیوں کو صحیح غلط بتانے سے، چاہے ٹائٹس کی بات ہو، چاہے ٹی-وی دیکھنے یا بلا ضرورت موبائل استعمال کرنے کی. اور سونے پر سہاگا یہ کہ چار بیٹیاں ان کی رہی سہی چڑچڑاہٹ کو بھی ابھار دیتی تھیں۔ حرا کی سمجھ سے باہر تھا کہ آخر سارے اچھے کام اور رویے ان کے اعتراضات کو کیوں کم نہیں کر پاتے تھے؟

مگر وہ یہ سوچ کر چپ رہتی تھی کہ شاید یہی اس کی آزمائش ہے، آخر کو اللہ نے باقی ساری آسانیاں بھی تو دے رکھی ہیں۔ 

حماد اسے ہر طرح کا جذباتی تحفظ دیتے ہیں، اس کی اور اپنی بیٹیوں کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، دین کے معاملے میں دونوں کا ایک ہی نقطہء نظر ہے، بچیوں کی تربیت میں آسانی اور ان کا ساتھ شامل ہے اور کبھی کسی قسم کی کوئی سختی یا زیادتی نہیں کرتے۔ 

مگر اب اتنی بڑی بات سن کر حرا کے نازک دل پر چھریاں سی چل رہی تھیں اور یہی خاموش رہنے والا دل کہہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر پورا آسمان سر پر اٹھا لو۔ اپنا سارا صبر بالائے طاق رکھ کر حساب لو کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔

گھر پہنچ کر اس وقت تو چپ چاپ بمشکل تمام بچیوں کو سلایا اور خود سونے کے لیے لیٹی، جسمانی اور ذہنی تھکن سے جسم و دماغ ٹوٹ رہا تھا۔ مگر حرا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ چپ نہیں رہے گی، اب وہ بھی بولے گی اور جم کر بولے گی۔

 

٭٭٭٭٭

 

اگلی صبح تھکن کے باعث دونوں ہی فجر کی نماز پڑھ کر سوگئے تھے تو کچھ دیر سے اٹھے۔ لہذا بات چیت کرنے کا وقت تھا نہ موقع، جلدی جلدی تیار ہوکر حماد آفس اور بچے اسکول کے لیے نکل گئے۔ 

خیر ہے، کوئی بات نہیں شام کو آتے ہیں تو بات کرتی ہوں۔ حرا پورا دن یہی سوچ سوچ کر کام نمٹاتی رہی۔ مغرب کے بعد حماد آتے تھے یہاں تک کہ روٹیاں بھی بنا لیں۔ نماز کے بعد کھانا کھا کر ابھی دسترخوان اور باورچی خانہ سمیٹا ہی تھا کہ لائٹ چلی گئی۔ تو سب گھر والے ایک ہی ہوا دار کمرے میں آکر بیٹھ گئے، دن بھر کی باتیں، بچیوں کی شوخ شرارتیں، ہنسی مذاق میں وقت کا پتا ہی نہ چلا اور عشاء کی اذان ہوگئی۔ 

حماد تو مسجد چلے گئے، حرا بچیوں کے ساتھ نماز پڑھنے لگی البتہ چھوٹی بیٹیاں اچھل کود میں مصروف رہیں تو نماز ختم ہونے تک سونے کے لیے رونے لگیں۔ 

سب ہی تو صبح سے جاگ رہے تھے اور لائٹ بھی غائب تھی۔ وہیں بستر بچھائے اور لیٹ گئے، حماد بھی مسجد سے واپس آکر وہیں دراز ہوگئے۔ ذرا سی دیر میں سب کے سب سو چکے تھے۔ حرا نے اٹھ کر گھر کے باقی کمروں کی لائٹوں اور پنکھوں کے بٹن بند کیے اور خود بھی آکر لیٹ گئی۔ اپنا سکون سے سویا ہوا خاندان اس قدر پیارا لگ رہا تھا، اسے ڈر لگا کہ کہیں نظر ہی نہ لگ جائے۔ حفاظت کی تمام دعائیں اور قرآن پڑھ کر اس نے سچے دل سے اپنے گھر کے بسے رہنے کی دعا کی۔ اور یہی سوچتے سوچتے وہ بھی نیند کی وادیوں میں جا چکی تھی۔ 

لگتا ہے اللہ تعالٰی بھی اس کا غصہ ختم کرنا چاہتے تھے شاید وہ جلد بازی میں پھٹ پڑتی تو معاملہ بگڑ جاتا۔ جب کہ اس کی فطرت میں بھی کہاں تھی یہ جلدبازی، لڑائی جھگڑا۔ وہ تو ہمیشہ سے نہایت سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک تھی۔

 

جذبات کی رو میں بہ کر بغیر سوچے سمجھے بہت کچھ بول جانا ہر انسان کے لیے بہت آسان کام ہے لیکن باشعور مومن وہی ہوتا ہے جو پہلے تولے پھر بولے۔ کسی شدید چوٹ پر اگلے پچھلے سارے بھرم توڑ ڈالنا، ساری نعمتوں کو نظر انداز کر دینا، اپنی بصیرت کو محدود کرنے اور تنگ نظری اپنانے سے انسان صرف کفرانِ نعمت ہی کرتا ہے۔ پھر وہ رب جس نے اتنا کچھ نوازا تھا اگر ناراض ہوکر واپس لینے پر آجائے تو لوگ شکوہ بھی اسی ذات سے کرتے ہیں۔ لیکن حرا کو اللہ نے اپنی قدرت سے اس بے وقوفی سے باز رکھا، ورنہ عورت اپنے جذبات کی مدد سے جہاں گھر بساتی ہے وہیں اپنے جذباتی پن کی وجہ سے بعض اوقات بہت نقصان بھی اٹھاتی ہے۔ 

 

بہرحال وہ رات گزر گئی اور اگلی صبح بھی ہو ہی گئی۔

 

٭٭٭٭٭

 

یہ جمعے کا دن تھا، آج اطمینان تھا کہ رات کو سکون سے بات ہو سکے گی کیوں کہ اگلے دن دفتر تھا اور نہ ہی اسکول۔ 

 

رات کو بچیوں کو سلا کر وہ جب اپنے کمرے میں آئی تو حماد لیپ ٹاپ پر کام کر رہے تھے۔ فارغ ہوکر جب بستر پر لیٹی تو وہ تھک چکی تھی اور لڑنا تو ویسے بھی اس کی سرشت میں شامل نہ تھا، عجیب بے چارگی سے کہنے لگی:

”کیا میں آپ سے کچھ بات کر سکتی ہوں؟“

 

”کہو، سن رہا ہوں۔“

 

”نہیں، توجہ چاہیے، آپ پہلے کام ختم کر لیں۔“

 

یہ کہہ کر اس نے کتاب اٹھا لی، بس ورق گردانی ہی کرتی رہی۔ دل و دماغ کتاب سے کہیں دور، حماد کی دوسری شادی میں الجھا ہوا تھا۔

 

”ہاں اب بولو“، حماد بستر پر بیٹھتے ہوئے بولے تو چونکی۔ 

 

”جی وہ دراصل کئی دن سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔“

 

”ہاں معلوم ہے، نانی کے انتقال والے روز سے تم کچھ الجھی ہوئی ہو۔“

 

”میں۔۔۔ الجھی ہوئی۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ 

آپ کو کیسے پتا چلا، 

کیا آپ جانتے ہیں۔؟“

 

”اندازہ ہے، تم بولو۔“ حماد بے انتہا سنجیدہ تھے۔ 

 

اس نے ہمت کرکے بس کہہ ڈالا،

”نانا کے گھر پر پتا چلا کہ آپ کی امی آپ کی دوسری شادی کے لیے تیاری کر رہی ہیں، کیا یہ سچ ہے؟“

 

”ہاں سچ ہے، امی ایسا چاہتی ہیں۔“

 

”میں بھی سالوں سے جانتی ہوں کہ وہ ایسا چاہتی ہیں لیکن تیاری کرنے کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ آپ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔“

 

”دیکھو حرا! وہ بہت عرصے سے اس طرح کہتی آرہی ہیں۔ اب انہوں نے مجھ سے سنجیدگی سے پوچھا ہے لیکن فی الحال میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔“

 

”لیکن وہ تو رشتے بھی دیکھ رہی ہیں، یقیناً آپ مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔“

 

”اگر جھوٹ بولنا ہوتا تو میں تم سے یوں کھل کر بات کیوں کرتا۔ جب بات کرنے بیٹھی ہو تو سکون سے سنو اور یقین بھی کرنا سیکھو۔ میں نے کب تم سے جھوٹ بولا ہے؟ شادی کرنی ہوتی تو کب کی کر چکا ہوتا۔“ 

 

”تو انہیں اس بارے میں اتنا بڑھاوا کیسے ملا کہ وہ یوں بغیر آپ کے اقرار اور مرضی کے سرِعام یہ باتیں کرتی پھریں۔ ظاہر ہے آپ نے کچھ تو مثبت تاثر دیا ہی ہوگا نا۔ مجھے پتا تھا آخر میں یہی ہوگا، اتنی محنت کر کے میں نے یہ گھر بنایا، ڈھیروں قربانیاں دیں۔ اور آپ اس کے بدلے میں میرے اوپر سوکن لانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ بتائیں جواب دیں۔“

 

”تم نے جو محنت کی، قربانیاں دیں اور رویے برداشت کیے اس کا کچھ ثمر تو تمھیں الحمدللہ دنیا میں ہی مل رہا ہے کہ تم سکون کے ماحول میں علیحدہ رہتی ہو۔

مانا یہ گھر چھوٹا سا ہے، پانی اور بجلی کا مسئلہ بھی ہوجاتا ہے لیکن فلیٹ اپنا ہونے کی وجہ سے اس مہنگائی میں کرائے سے تو جان چھوٹی ہوئی ہے۔ تمھارے بھائی اور امی کا گھر بھی یہیں ہے کہ جانے کے لیے میری محتاج بھی نہیں ہو۔ 

 

باقی اجر ان شاءاللہ تمھیں دنیا میں بھی ملتا بھی رہے گا اور آخرت میں بھی ملے گا۔ 

 

جہاں تک رہی دوسری شادی کی بات تو اس کے بارے میں کچھ بھی الٹا کہنے سے پہلے سوچ لینا کہ یہ حق مجھے اللہ کی شریعت نے دیا ہے۔ میں یہ کروں یا نہیں، اللہ کی طرف سے بہرحال اجازت ہے لیکن تم کچھ غلط بول کر خود کو خواہ مخواہ گناہ گار کرو گی۔“

 

حماد نے ایسی بات بولی کہ حرا کو سانپ سونگھ گیا۔ ظاہر ہے شریعت کے احکام تو وہ خود بھی نہ صرف جانتی بلکہ ہر طرح سے مانتی بھی تھی لیکن اس معاملے میں بڑی سے بڑی سمجھدار و دیندار عورتیں بھی فرق کر جاتی ہیں۔

 

”تو یعنی آپ ۔۔۔ ایسا کرنے والے ہیں؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

 

”میں کل امی کو اسی مقصد کے تحت لے کر آؤں گا۔ پھر ساری باتیں ایک ہی بار آمنے سامنے ہو جائیں تو بہتر رہے گا۔ تنگ آگیا ہوں میں آئے دن کی اس تکرار سے۔“ حماد نے سخت لہجے میں کہا اور کروٹ بدل کر سونے لیٹ گئے۔

 

حرا کے تو یہ سب سن کر مارے گھبراہٹ کے ہونٹ خشک ہوگئے تھے، سائڈ ٹیبل سے اٹھا کر پانی پیا۔ اور تسبیح پڑھتے ہوئے چپ چاپ لیٹ گئی۔ آنسو تھے کہ اُمڈ امڈ کر بہ رہے تھے، پتا نہیں کل اس کی تقدیر کا کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔

 

٭٭٭٭٭

 

اگلے دن معمول کے کام چلتے رہے لیکن دونوں کے درمیان خاموشی سی رہی۔ شام میں اس کی ساس بھی آگئیں، وہ بھی کچھ کھنچی کھنچی سی تھیں۔ کھانے سے فارغ ہوکر حماد نے کہہ دیا کہ بچیوں کے سونے کے بعد آپ دونوں سے ضروری بات کرنی ہے۔ اپنے کاموں سے فارغ ہوکر ڈرائنگ روم میں آجائیں۔ 

 

”حرا تم چائے بنا لینا۔“ 

”جی اچھا“، وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔

 

یہ کہہ کر حماد نماز کے لیے مسجد چلے گئے اور وہ کام سمیٹ کر جائے نماز پر بیٹھی دعائیں کرتی رہی۔ جب بچیاں سو گئیں اور وہ چائے لے کر ڈرائنگ روم میں پہنچی تو امی اور حماد وہیں موجود تھے۔ چائے رکھ کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئی۔

 

”ہم تینوں کو معلوم ہے کہ یہاں کس لیے جمع ہوئے ہیں لہذا تمہید کی ضرورت نہیں۔ امی آپ میری دوسری شادی کروانا چاہتی ہیں؟۔“ 

 

”ہاں بیٹا میری بڑی خواہش ہے۔“ انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

 

”اس خواہش کی وجہ کیا ہے؟“ حماد کی سنجیدگی دیکھ کر حرا کو بہت گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی۔

 

”وہ دراصل مجھے پوتے کی بڑی حسرت ہے۔“

 

”حالاں کہ میرے باقی بھائیوں کے تو بیٹے موجود ہیں۔ اور آپ کے اپنے بھی بیٹے ہی بیٹے ہیں پھر بھی ابھی تک آپ کی حسرتیں پوری نہیں ہوئیں۔“

 

”وہ تو ہے بیٹا، لیکن وہ سب تمھارے بیٹے تو نہیں ہیں نا۔“

 

”لیکن آپ کو تو پوتا چاہیے نا، اور ان سب سے آپ کا یہی رشتہ ہے۔

 

مجھے تو بیٹے کی ایسی کوئی خواہش نہیں، الحمدللہ اولاد سے مجھے اللہ نے نواز رکھا ہے۔

 

اگر میں بیٹے کے لیے دوسری شادی کروں جبکہ مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں اور دوسرے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ تب بھی بیٹا ہوجائے گا۔ کیونکہ لڑکا یا لڑکی ہونا تو مرد کی جینز میں شامل ہوتا ہے۔ تو دوسری شادی کے بعد بھی میں تو مرد ہی رہوں گا۔“

 

”یہ کیا بات ہوئی، تم مرد ہو اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ دوسری شادی کرلو۔ تم دیکھنا اللہ تعالٰی بیٹا ضرور دے گا۔“

 

”صرف اس لیے دوسری شادی کر لوں کہ مرد ہوں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے اور اس کے بعد چاہے بیویوں سے انصاف کر سکوں یا نہیں۔ اللہ نے اگر مجھے اجازت دی ہے اور قوام بنایا ہے تو روز قیامت میری جوابدہی بھی ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں دو بیویوں کے درمیان انصاف کرنے کے قابل ہوں۔

چار بیٹیوں سے میری اولاد کی خواہش پوری ہے اور میں حرا سے بھی خوش ہوں۔

 

اب آپ بتائیں کہ آپ کو حرا یا بچیوں سے کیا شکایت ہے، کیا انہوں نے آپ کی کوئی نافرمانی کی ہے؟“

 

حرا تو حیران حماد کا منہ تک رہی تھی البتہ اس کی ساس کچھ پریشان تھیں۔ مگر بات انصاف کے ترازو میں تولی جارہی تھی۔ 

 

”نہیں بیٹا، ایسی تو کوئی بات نہیں بس کبھی کبھار کوئی بات یونہی ہوجاتی ہے۔ ورنہ حرا خوش شکل تو ہے ہی، ملنسار و با اخلاق بھی ہے۔ باقی سب کے مقابلے میں دیندار بھی ہے اور بچیوں کو بھی اسی طرح تربیت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے لگتا ہے کہ تم لوگ باقی سب سے کٹ جاتے ہو۔“ 

 

اب تو حرا کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔

 

”امی، آپ سے بالکل ایسے ہی جواب کی توقع تھی۔ کیونکہ میں نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ یقیناً حرا کی ان خوبیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر ہم باقیوں سے علیحدہ رہ جاتے ہیں تو اس میں اللہ کا حکم اور میری اجازت شامل ہوتی ہے۔ بلکہ میں تو آپ سے بھی کہتا ہوں اب ان خرافات کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالٰی سے دعا کیا کریں کہ میرے باقی بھائیوں کے بھی دل بدل دیں۔“

 

”ہاں بیٹا، اللہ نے مجھے تمھارے جیسی نیک اولاد دی، اب توفیق بھی دے دیں۔ ایسا کرتی ہوں کہ حرا کے ساتھ پوری تفسیر پڑھ لیتی ہوں۔ کئی بار شروع کی لیکن ماحول نہ ہونے کی وجہ سے مکمل نہیں ہو پائی۔“

 

”یہ تو بہت نیک خیال ہے۔ ضرور پڑھائے گی، کیوں حرا؟“ 

حماد نے اتنی گفتگو میں پہلی بار اسے مخاطب کیا، لیکن اس کی طرف دیکھا نہیں۔

 

”جی ضرور کیوں نہیں، بلکہ یہ خدمت تو اپنے دل و جان سے ادا کروں گی۔“ حرا نے بڑی مشکل سے الفاظ جوڑے۔

 

”اور جو امی نے کہا کہ بس کبھی کبھار کچھ ہو جاتا ہے۔ اب وہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔“ حماد کا لہجہ اب نرم پڑ چکا تھا۔

 

”جی، ان شاءاللہ، آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔

امی آپ بھی میری غلطیوں کو معاف کر دیں۔“ حرا نے رضامندی سے کہا۔

 

”ارے نہیں بیٹی، بلکہ تم میری زیادتیوں کو ماں سمجھ کر درگزر کر دینا۔“ انہوں نے حرا کو شفقت سے اپنے ساتھ لگایا۔ 

 

”چلیں اب سب آرام کریں، بہت رات ہو گئی ہے۔“ یہ بولتے ہوئے حماد اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ 

ساس بچیوں کے کمرے میں سونے چلی گئیں اور حرا بھی کچھ جھجھکتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف کی چلی گئی۔

 

٭٭٭٭

 

حماد بستر پر دراز آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹے تھے۔ حرا چپ چاپ ان کے پیر دبانے لگی۔ ہاتھ ہٹائے تو بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا، 

 

”اب بے چین دل کو قرار مل گیا؟“

 

حرا نے جھکی نظریں اٹھا کر حماد کی طرف دیکھا اور آنسو بہ نکلے۔ 

 

”ارے پگلی، روتی کیوں ہو؟“ انہوں نے اسے چھیڑا۔

 

”ارے پگلے، یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔“ اس نے دل سے ہنس کر کہا۔

 

”اچھا سنو، ایک ہفتے سے تمھاری اتری ہوئی صورت دیکھ رہا ہوں۔ اب واپس وہی من موہنی صورت نظر آنی چاہیے۔“ 

 

”جو حکم میرے پیارے سرتاج۔“ 

 

”کیا تمھاری لپ اسٹکس ختم ہوگئی ہیں؟“

 

”جی نہیں تو، پر کیوں؟“

 

”ختم نہیں ہوئی تو لگایا کرو نا پیاری بیگم، میں لپ اسٹک کا خرچہ الگ سے دے دیا کروں گا۔“

 

حماد کی آنکھوں میں بےحد مان اور اپنائیت تھی، کسی بیوی کو بھلا اور کیا چاہیے ہوتا ہے۔ وہ فرطِ جذبات و مسرت سے اللہ کا شکر بجا لائی۔

 

آج اس کی خیالات کے تپتے صحرا سے اپنے گھر کی ٹھنڈی چھاؤں میں حقیقی واپسی تھی۔

 

عارضہ اتنا نہیں کیونکہ مسیحا ہے نصیب،

غمگسار اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ آئی!