ندا اختر میر پور خاص
وہ دور نظروں میں کسی تصور کو جمائے تا حد نگاہ خالی خالی زرد رنگ کے قمقموں کو دیکھ رہی تھی، سردی کی ٹھٹرتی رات میں خشک گلابی ہونٹوں پر سفیدی کی پرت جمی تھی ۔۔
ہواؤں کے چلتے دھیمے انداز میں کسی کی آہٹ پوشیدہ تھی ۔ کوئی گرم شال جس نے اپنے حصار میں سمیٹ لیا ہو، کافی کا دھویں اڑاتا کپ اور مسکراتا چہرہ ،نا معلوم اچانک کہاں غائب ہوگیا ۔ کسی کی یادیں تھیں بس ۔۔۔اور عکس مضمحل ہوگیا ۔
٭٭٭٭٭
تم کیا سمجھتی ہو، میں تمارے بغیر جی نہیں سکتا، مجھے تم سے اب کوئی واسطہ نہیں رکھنا "میرے دل میں اب کوئی جگہ نہیں تمہارے لیے ۔ نہیں آؤں گا اب میں "
وہ زور سے دروازہ پٹخ کر ہاہر نکل گیا اور وہ تنہا کسی اداس شام کی طرح حیران رہ گئی۔۔
جاتے ہوئے اس کی جیب سے ایک صفحہ نکل کر گرا، جسے اس نے اٹھایا نہیں ۔
٭٭٭٭
کئی برس ساتھ گزارے، اچانک یہ رویہ بہت ہی غیر معمولی تھا ۔ کچھ تو وجہ ہوگی ایسا کیوں کیا آخر !!!
کئی دن گزر گئے لیکن واپسی کا کچھ پتا نہ چل سکا اور بےچینی جیسے مار ڈالنے والی
وجود کسی کی جدائی میں طوفاں کی نظر ہوگیا
مگر وہ نہ آیا ۔
٭٭٭٭
ایک دن وہ ویران آنکھوں سے اس کے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی کہ ملازمہ آئی اور بتانے لگی کہ صفائی کے دوران اسے کچھ ملا تھا، شاید صاحب کے کام کا کوئی پرچہ ہوگا ۔
کھول کر دیکھا تو اس میں کسی جان لیوا بیماری کی خبر تھی کوئی میڈکل رپورٹ تھی۔
انکھیں بھیگ رہی تھیں ۔۔ کہہ رہی تھیں، ہم دونوں مل کر اس مشکل وقت سے لڑ لیتے کچھ وقت اور ساتھ گزارتے نئی یادیں پیدا کرتے، اس طرح بھاگنا تو بزدلی ہے یہ کیسا ہم نشیں ہے جو ساتھ چھوڑ گیا ۔
اسی وقت دروازہ بجا ۔۔ میم آپ کے لیے ایک پارسل آیا ہے۔ رات گہری ہو چکی جب خیالوں پر بے وفائی کر جانے والے کا طوفان کھڑا تھا، اس نے وہ خط پڑھا جس میں موت کی خبر اور اپنا خیال رکھنے کی وصیت تھی ۔
دل تھا کہ سمجھ نہ سکا یہ کیا ہوا کیوں مجھ سے چھپایا؟ کیوں اجنبی کر گئے ۔
آوازیں تھیں، کچھ ہنسنے مسکرانے اور عمر بھر ساتھ نبھانے کی، میں آج جلد آجا ؤں گاتم تیار رہنا ،ہم باہر کہیں چلیں گے، تمہاری طبیعت اچھی ہو جائے گی ۔ میں جو جوڑا لایا تھا وہی پہننا اور ہاں وہ چوڑیاں بھی، واپسی میں کچھ شاپنگ بھی کریں گے میں جلدی آجا ؤں گا اپنا بہت خیال رکھنا اچھا چلتا ہوں ۔
خاموش نگاہیں کہہ رہی تھیں
تیرا وعدہ ادھورا رہا ،شام سے پھر سحر ہو گئی
مجھ کو کھڑکی پہ بیٹھے آج پھر رات بھر ہوگئی