بیگم ناجیہ شعیب احمد

جھریوں زدہ کپکپاتے ہاتھوں میں سُوپ کا پیالہ تھامے بوڑھا بدن کھانسا تو سوپ چھلک پڑا، احساسِ بے بسی و محتاجی سے بڑی بی کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے، لمحہ بھر کو بڑے میاں کا دل سکڑا انہوں نے سوپ کا پیالہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا کانپتے لزرتے ہاتھوں سے نحیف و نزار بڑی بی کا کنول سا چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں بھر کر وفورِ محبت و عقیدت سے ان کا ماتھا چوم لیا بوڑھی نم آنکھیں احساسِ

تشکّر سے لبریز ہو گئیں۔

"جانِ من! پتا ہے اس کرۂ ارض پر سب سے خوبصورت رشتہ جسے ربِ کائنات نے اپنی نشانی فرمایا ہے وہ کون سا ہے؟ میاں بیوی کا۔ میرے دکھ سکھ کی ساتھی! خوشیوں کی بہاروں میں ہم دونوں ساتھ چہکتے تھے، پت جھڑ کے اس موسمِ پریشاں میں اپنی بلبل کو بے یار و مددگار کیسے چھوڑ دوں؟جانِ تمنا! محبت توجہ کا نام ہے جو میں آپ پر نچھاور کر رہا ہوں آپ اسے دل و جان سے قبول و وصول کیجیے." بڑے میاں کا پوپلا منہ اور اندازِ مجنونانہ دیکھ کر بڑی بی بچوں کی طرح قِل قِل کرکے ہنسنے لگیں اپنی متاعِ جاں کو یوں کھلکھلاتا دیکھ کر بڑے میاں کے چاروں اطراف جلترنگ بج اٹھے دیوار پر نوجوان جوڑے کے عکس میں جان سی پڑ گئی دلوں کی تھاپ پر دو بدن محو رقص دیکھائی دینے لگے۔