بدر عالم ... خدا کے لیے! ہماری جیب سے دشمنی مت کیجیے۔ پہلے ہی اس مہینے آپ نے ان انگریزی سوئّیوں پر ہمارے ہزاروں روپے لٹا دیے۔ غضب خدا کا کوئی اسپیگٹی، کوئی لزانیا، کوئی میکرونی، کوئی تکا اسپیشل، کوئی اٹلی اسپیشل... یہ کوئی کھانے ہیں! بندہ کھا کے بھی آدھا بھوکا ہی رہے!!

ام محمد سلمان


” بھئی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ چہل قدمی کیا کریں۔ صحت مند رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ روزانہ کم از کم نصف گھنٹا ضرور پیدل چلنا چاہیے۔ اس لیے ہم نے سوچا ہے منیر حسن صاحب! کل سے ہم دونوں صبح چہل قدمی کیا کریں گے۔ اجی سنتے ہیں؟ یہ گھنٹیاں تو نکال دیجیے کانوں سے۔“ بدر عالم نے میاں صاحب کے کانوں سے ہینڈ فری کھینچ کر نکالا۔ ارے ارے بیگم آرام سے! کان بھی ساتھ نکالیں گی کیا؟! کس قدر احساس سے عاری خاتون ہیں آپ! لاحول ولا قوۃ.....

”آپ کے منفی تبصرے سے ہماری صحت پر چنداں فرق نہیں پڑنے والا منیر حسن! ہمیں اچھی طرح معلوم ہے ہم خوب صورت احساسات کی ملکہ ہیں۔“ بدر عالم نے اتراہٹ کے ساتھ کندھوں پر شال پھیلائی۔ بس ہم کہے دے رہے ہیں کل صبح نماز فجر کے بعد اعظم پارک چلیں گے۔ وہیں گھنٹا بھر چہل قدمی کر لیا کریں گے۔ صحت بھی اچھی اور فٹنس بھی خوب۔“

”بھئی ڈاکٹر نے یہ مشورہ آپ کو دیا ہے۔ بخدا ہمیں اس سے دور ہی رکھیے۔“ منحنی سے منیر حسن صوفے پر بیٹھے بیٹھے کچھ اور سمٹ گئے۔

”ارے کیسے دور رکھیں صاحب! ہم نے آج تک آپ کے بغیر گھر سے باہر ایک قدم نہیں رکھا کجا کہ قدم پر قدم رکھتے چلے جائیں.... یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ بس یہ طے ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں گے!“

”ارے بھئی کوئی زبردستی ہے! ہم نہیں جا رہے تو بس نہیں جا رہے۔“

”کیسے نہیں جا رہے؟؟؟ آپ کے تو اچھے بھی جائیں گے!“

”ہاں تو لے جائیے ہمارے اچھوں کو... بصد شوق لے جائیے۔ ہم نے کب انکار کیا...!“

”دیکھیے! ہم کہے دے رہے ہیں بات کو مذاق میں ٹالنے کی جسارت نہ کیجیے منیر حسن! ہمارا فشارِ خون بلند ہوا تو آپ کی جیب کے لالے پڑ جائیں گے ۔“

”بدر عالم ... خدا کے لیے! ہماری جیب سے دشمنی مت کیجیے۔ پہلے ہی اس مہینے آپ نے ان انگریزی سوئّیوں پر ہمارے ہزاروں روپے لٹا دیے۔ غضب خدا کا کوئی اسپیگٹی، کوئی لزانیا، کوئی میکرونی، کوئی تکا اسپیشل، کوئی اٹلی اسپیشل... یہ کوئی کھانے ہیں! بندہ کھا کے بھی آدھا بھوکا ہی رہے!!

” دیکھیے ہماری بات کو گھمانے پھرانے کی کوشش مت کیجیے. ہم نے کہہ دیا تو کہہ دیا۔ ہم صبح اعظم پارک آپ کے ساتھ ہی جائیں گے۔“

”اور ہم نے بھی کہہ دیا ہم صبح اعظم پارک نہیں جائیں گے۔“

”تو پھر کہاں جائیں گے؟ کہیں اور کا ارادہ ہے تو بتا دیجیے، وہیں چل پڑیں گے ہم بھی۔ واللہ ہمیں کوئی اشکال نہیں۔“

”ارے بھئی مطلب یہ ہے کہ ہم کہیں بھی نہیں جا رہے۔ سردیوں کی حسین صبح تو ہم نماز کے لیے مشکل سے جاتے ہیں اور آپ ان ٹھنڈی ہواؤں میں ہمیں چہل قدمی کے لیے لے جا رہی ہیں جو کہ ہم بالکل نہیں جانے والے۔ ہمارا مخلصانہ اور ماہرانہ مشورہ ہے کہ گھر ہی میں یہ شوق پورا کر لیجیے۔ آپ بھی خوش ڈاکٹر بھی خوش۔“

” منیر صاحب! آپ خود ہی سوچیے... ڈھائی مرلے کے مکان میں چہل قدمی کس طرح ممکن ہے...! خواب گاہ سے نکلتے ہیں تو برآمدے میں رکھے تخت سے ٹکرا جاتے ہیں، باورچی خانے کی طرف جاتے ہیں تو نعمت خانے سے ٹکرا جاتے ہیں، صحن میں چلنے کی جسارت کریں تو گملوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ گملوں سے بچیں تو ٹینک کے ڈھکن سے... کبھی گھٹنے پھوٹتے ہیں کبھی ٹخنے دہائی دیتے ہیں... چھت پر چہل قدمی کرنے کی کوشش کریں تو جا بجا پھیلے پانی کے پائپ راستے میں روڑے اٹکانے لگتے ہیں۔ جائیں تو کہاں جائیں صاحب!! بدر عالم نے افسوس سے پیشانی پر ہاتھ رکھا ۔

” ارے بھئی اس میں پریشانی والی کیا بات ہے بیگم! گھر کے باہر گلی میں کر لیا کیجیے چہل قدمی۔ “

”کیا کہا... گلی میں؟ آپ جانتے بھی ہیں آوارہ کتے کس طرح مٹر گشت کرتے پھرتے ہیں گلیوں میں! ہم تو ہرگز ہرگز یہاں چہل قدمی کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔“

”خیر یہ تو آپ نے بجا فرمایا! کتوں کی بہتات نے اچھے بھلے مسائل کھڑے کر رکھے ہیں۔ ایک تو آج تک ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا برصغیر پاک و ہند میں کتوں کی پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ چلو گوروں کے دیس میں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انگریز ٹھہرے جنم جنم سے کتوں کے شیدائی... مگر ہمارے گلی کوچوں میں بے ہنگم بھونکنے کے سوا ان کا اور کام ہی کیا ہے! جب دیکھو کہیں نہ کہیں سر تال ملائے کھڑے ہوتے ہیں۔ دو دن پہلے کا ہی قصہ سن لیجیے... رات تین بجے جو بھونکنا شروع ہوئے تو صبح نو بجے تک بھی محفل برخاست نہ ہو سکی۔ ایک پارٹی ادھر، ایک اُدھر.... خدا جانے کون سے ”کان پھاڑ“ مذاکرات چل رہے تھے. دس دفعہ ہم چھت پہ گئے اور ڈرتے ڈرتے چھتیس دفعہ باہر گلی میں جھانکے، دو تین دفعہ تو پتھر مار کر توجہ بٹانے کی بھی کوشش کی مگر مجال ہے ان کے ارتکاز میں رتی برابر فرق پڑا ہو. بڑے ہی کتے قسم کے کتے تھے بھئی۔ خدا ان کے شر سے بچائے ۔“

”جی جناب اسی لیے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ چلیے۔ عمر عزیز کی پینتیس خزائیں آپ کے ساتھ گزار لیں۔ اب چار قدم چہل قدمی کے آپ کے بغیر کیوں کر گوارا کر سکتے ہیں! وہ بھی ایسے ڈھیٹ نسل کتوں کی موجودگی میں۔ “

”بھئی بیگم صاحبہ! کتوں سے عداوت اپنی جگہ.... لیکن صبح صبح گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہم ہرگز تیار نہیں!! آپ خود ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکال لیجیے! دیکھیے ہمیں اس معاملے سے دور ہی رکھیے ۔“ وہ اکتائے لہجے میں بولے ۔

دیکھیے منیر حسن! اب آپ ہمارے غصے کو ابال مت دیجیے۔ ایسا نہ ہو آپ کی ان پالتو مچھلیوں کا بہیمانہ قتل ہو جائے ہمارے ہاتھوں... انھوں نے شیشے کے جار میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیوں کی طرف اشارہ کیا جنھیں منیر حسن نے بڑی محبت اور شوق سے رکھا ہوا تھا۔

”خبردار جو ہماری معصوم مچھلیوں کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا ۔“

”ارے واہ کیوں نہ دیکھیں! آپ نے کرنا کیا ہے ان بیکار مچھلیوں کا...! حنوط کر کے احرام مصر میں رکھوائیں گے کیا؟

یا خدا!! کیسا شاطرانہ ذہن پایا ہے بدر عالم! کس قدر سفاک منصوبہ سازی کی ہے آپ نے ہماری پالتو مچھلیوں کو عالم بالا میں پہنچانے کی۔ وہ فوراً اپنی مچھلیوں کے پاس جا کھڑے ہوئے۔

”ویسے ایک بات ہے... ہم سے اچھی تو یہ مچھلیاں ہی ہیں جن پہ آپ کی نظر التفات تو رہتی ہے۔ “ بدر عالم قدرے شکوہ کناں ہوئیں ۔

”آپ کے کیا کہنے بیگم! آپ کو تو ہر وہ چیز چبھنے لگتی ہے جس کا ہماری دلچسپی سے دور کا بھی واسطہ ہو... اپنے مرزا صاحب کو ہی دیکھ لیجیے وہ.......

مرزا صاحب کا نام نہ لیجیے گا خدارا!! بدر عالم نے ان کی بات راستے میں ہی اچک لی۔ وہ اول درجے کے کبوتر باز، زمانے بھر کے نکمے نکھٹو، چوک پر بیٹھے زمین پر جھکے... خدا جانے کون سی آڑی ترچھی لکیریں کاٹتے رہتے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ہمیں تو یوں لگتا ہے وہ کسی کالے علم کے ماہر استاد کی قدم بوسیاں کرتے ہیں آج کل! پرسوں تو ہم نے گلی سے گزرتے ہوئے ایک سیاہ کتے کے رسی پکڑے بھی دیکھا انھیں ۔“

بدر عالم! آپ اس قدر توجہ فرماتی ہیں ان پر! ایسی عرق ریز تحقیق تو کسی یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم نے ایٹم بم پر مقالہ لکھنے میں بھی نہ کی ہو گی....!!

لاحول ولا قوۃ.. وہ کوئی ایسی چیز ہیں جسے قابل تحقیق سمجھا جائے۔ راستے سے گزریں گے تو اردگرد دیکھیں گے ہی! یوں آنکھیں بند کیے گزرے تو کسی دن کسی بغیر ڈھکن کے کھلے گٹر سے اندر گرنے کے قوی امکانات موجود ہیں منیر صاحب!

” ارے بھئی جب ہم آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو گرنے کا کیا ڈر... ؟“

”آپ کا ساتھ کوئی قابل ضمانت نہیں منیر حسن! دور کا چشمہ آپ ہمیشہ گھر میں بھول جایا کرتے ہیں۔ قدوسی آپا کے بکرے آپ کو کتے دکھائی دیتے ہیں تو کتوں کے چھوٹے چھوٹے پلے مرغیاں نظر آتی ہیں.... “

”دیکھیے بدر عالم! صورت حال کچھ بھی ہو... مرزا صاحب کے بارے میں ایسی اندوہناک رائے سے اجتناب کیجیے وہ ہمارے قابل دوست ہیں!“

”لیکن ان کی دوستی ہمارے گھر کے امن میں ہمیشہ خلل انداز ہوتی ہے۔“ وہ بھی ٹھوک بجا کر دلیل لائیں۔

”ارے بھئی آپ کو تو اس خاکسار کے دوستوں پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے وہ ہمارے دوست عبد المتین.....

”ارے ان کا تو نام نہ لیجیے گا۔ خدا ان کے قہر و غضب سے عالم کو بچائے، دیکھنے میں ایسا پاکیزہ حلیہ کہ امامِ مسجد کا گمان ہو مگر کرتوت دیکھیے تو پتا چلے بیوی بھلی مانس کو میکے جانے تک کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمیں تو ڈر ہے ایسے دوستوں کا اثر آپ پر نہ ہو جائے۔“

کیسی باتیں کرتی ہیں آپ بدر عالم! وہ بے چارے بیوی کو اس لیے منع کرتے ہیں کہ ان کا میکا لاہور میں ہے، سفید پوش عبد المتین کہاں سے آئے دن کے کرائے بھاڑے اور تحفوں تحائف میں پیسا لٹا سکتے ہیں! ان کی اہلیہ نے یقیناً غلط بیانی کی ہے آپ سے۔“

” ہممم اس پر سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی آپ ایسے دوستوں سے دور ہی رہیے۔ “

” ایسا ہی ہوگا بیگم جان! اب اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔“ منیر حسن تھکے تھکے سے لہجے میں بولے اور ایک بار پھر موبائل اسکرین سامنے کر لی۔

” تو پھر کل صبح نماز فجر کے بعد چہل قدمی کے لیے تیار ہیں نا!!!“

”ظاہر سی بات ہے! چاروناچار تیار ہونا ہی ہے مگر اتنی صبح نہیں، نو بجے تک ٹھیک رہے گا وہ بھی ناشتے کے بعد!“ وہ ہار ماننے والے انداز میں گویا ہوئے۔

”چلیے منظور ہے صاحب! فاخرہ بیگم فاتحانہ مسکراہٹ لیے کمبل لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ **

لیکن صبح جب نماز فجر کے بعد وہ گھر میں داخل ہوئے تو بدر عالم کیل کانٹے سے لیس ہوئے کھڑی تھیں۔

ارے بھئی یہ کیا... کہاں کی تیاری ہے؟ وہ سمجھ کر بھی نہ سمجھنے کی ناکام اداکاری کرنے لگے۔

دیکھیے منیر حسن! جو کام ڈیڑھ دو گھنٹے بعد کرنا ہے وہ ابھی کیوں نہ ہو جائے! صبح کا سہانا وقت بستر میں گزار کے نو بجے باسی دھوپ کا مزہ کیا خاک ملے گا؟ ابھی چلتے ہیں نا..!! نرم شبنمی گھاس پر چہل قدمی کا لطف بھی آئے گا اور آفتاب کی پر نور شعاعوں سے زندگی کی رمق یعنی وٹامن ڈی بھی وافر مقدار میں مل جائے گا۔ پھر کیا خیال ہے؟“وہ مسکرائیں

”بھئی آپ سے کون جیت سکتا ہے بدر عالم!! آپ کے ابا حضور نے نام ہی ایسا چھان پھٹک کر رکھا تھا کہ آگے کوئی دم نہ مار سکے۔ چلیے جناب!“ منیر حسن بھی ہنستے ہوئے ان کے ہم نوا ہو گئے۔