محمد کاشف تبسم

 شادی کے بعد پہلی نظر کی خوشی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

ایک جھلک میں ہزاروں جلوے حسین تصویر کھینچ دیتے ہیں۔

زیر لب مسکراہٹ،خوشی سے لبریز مہکتا دل اور پوری کائنات مسکراتی مسکراتی استقبال کرتی ہے۔

کیسا حسیں رشتہ اور کتنا ہی پیارا آغاز!!!

اکتوبر کی ایک ٹھنڈی میٹھی شام بلال کے لئے پیغام مسرت لئے کھڑی تھی۔

جاؤ بیٹا اپنے کمرے میں اب آپ کا ہی انتظار ہو رہا ہے سب مہمان وہاں سے جا چکے ہیں۔

گھر کے ہال سے اپنے کمرے تک پورے دس قدم کا فاصلہ طے ہو گیا۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

بلال کی آواز چہکی

دوسری طرف سے نظر اٹھی مگر شرم ، حیا ،پہلی نظر کی تاب اور مشرقی روایات !!!

جی وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!!

اور پھر خاموشی۔۔۔۔۔

اس خاموشی کے چند سیکنڈوں میں نجانے کتنے ہی گیت ،نغمے ،سریلی آوازیں،بھینی بھینی خوشبو اور روشنی کی کرنیں پھوٹ پڑیں!

یہ سب پیار کے جذبات تھے۔حسیں جذبات!!

جان من ! تم ملکہ ہو

تمہارا آنا مبارک

زندگی کے اک نئے سفر کا آغاز اور جیون ساتھی بننا مبارک!

عائشہ! یہ میری طرف سے گفٹ ہے۔

ایک سادہ سی انگوٹھی دیکھتے ہی نئی نویلی دلہن کا رنگ فق ہو گیا۔

وہ ساری زندگی کے سپنے بکھرتے محسوس کرنے لگی۔

اس نے ہمیشہ سہیلیوں میں بیٹھ کر حسین خواب بنے تھے مگر یہ کیا؟

وہ تو سوچتی تھی کہ ایک شہزادہ اترے گا جو اسے ہیرے جواہرات میں تولے گا۔دنیا کے سارے خزانے اس کے قدموں لا کر رکھے گا اور کہے گا جو چاہو پسند کر لو!!

عائشہ کا رشتہ ایک اچھی فیملی میں ہوا تھا اس لیے اسے اپنے خیالات میں حقیقی رنگ بھرنے کا یقین ہو چلا تھا۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تحفہ قبول کرتے ہوئے وہ بمشکل مسکرانے کی ایکٹنگ کر رہی تھی اور ذہن میں ایک ہی بات چل رہی تھی کیا میری زندگی یوں ہی گزرے گی!!!

زندگی کہاں ٹھہرتی ہے شادی کے بعد پانچ ماہ گزرنے کو ہیں یہ گھر بسنے سے پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔

عورت اپنی فطرت سے مجبور ہوتی ہے عائشہ بھی ایک عورت تھی۔اس کے ذہن میں ہمیشہ یہی سوال کانٹا بن کر چبھتا رہا شاید میں میں محروم رہوں گی۔

احساس محرومی نے ہمیشہ شک کو جنم دیا ہے یہاں بھی شک کی دراڑ پڑ چکی تھی ۔۔۔۔شاید مجھے پسند نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔شاید بلال کی پسند کوئی اور ہے۔۔۔۔شاید شاید شاید ۔۔۔۔عائشہ کی زندگی شاید کے آسیب کا شکار ہو چکی تھی۔

اور ادھر بلال یہ سوچ کر چپ رہتا کہ شاید وقت لگے گا سب ٹھیک ہو جائے گا !!!

مجھے طلاق چاہیے

عائشہ کا یہ سوال بلال کے لئے غیر متوقع تھا مگر وہ سنبھلا اور بولا: عائشہ تمہیں معلوم ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟

جی یہ میرا پانچ ماہ کے تلخ تجربات کا اختتامی نتیجہ ہے !

میں جذباتی نہیں ہوں سوچ سمجھ کر مطالبہ کر رہی ہوں۔

آپ کو کس چیز کی کمی ہے؟

بلال کے چہرے پر شکنیں نمودار ہو چکی تھیں۔

مجھے معلوم تھا ہمیشہ کی طرح آج بھی تمہارا یہی سوال ہو گا تو سن لیں مجھے ملا ہی کیا ہے؟؟

بلال غصے سے گھر سے باہر نکل گیا ۔وہ مسئلے کی اصل وجہ تلاشنے لگا۔اس نے شادی کے پورے پانچ ماہ کو سوچا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔

بلال کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا اسے اپنی شریکِ حیات پر رحم آنے لگا۔وہ بے قصور تھی۔

مرد ہمیشہ عورت کو ایک مرد کی حیثیت سے سوچتا اور پرکھتا ہے جب کہ عورت نازک ہے ،کمزور ہے !

مرد معاشرے کے ہر رویے اور ہر جذبے سے ٹکرا جاتا ہے مگر عورت جیتے جی مر جاتی ہے وہ اپنی ہم جولیوں میں اپنی جگ ہنسائی برداشت نہیں کر سکتی .عورت کو ٹکرانا نہیں خود کو منوانا آتا ہے اور بس!

اگر عورت اپنے سماج میں خود کو منوانے میں ناکام سمجھنے لگے تو وہ ہار جاتی ہے،ٹوٹتی اور بکھرتی چلی جاتی ہے۔

 بلال نے یہ بات کہیں پڑھی تھی مگر اسے مانا نہیں تھا مگر آج وہ یہ سب حقیقت تسلیم کر چکا تھا۔

تو کیا اس نے بیوی کا علاج سوچ لیا تھا؟؟

جی نہیں اپنے حسیں رشتے کو بچانے کا ایک خوب صورت حل!!!

بلال کے پاس تین راستے تھے

پہلا راستہ ؛

بیوی کو طلاق دے کر جان چھڑا لی جائے

دوسرا راستہ؛

ایسے ہی چلتے رہیں کبھی تو سمجھ جائے گی

تیسرا راستہ

اس مسئلے کا سلجھاؤ

اور بلال نے یہی تیسرا راستہ اختیار کیا اور عائشہ سے کہا :

تم جیسے چاہو وہی کرو میری طرف سے کوئی پابندی نہیں بس ایک بات یاد رکھنا میں نے تمہیں اپنی زندگی سے بڑھ کر چاہا ہے۔بس تم میری مجبوریاں نہیں سمجھ سکیں۔

عائشہ کے ذہن پر سماج کا جادو کچھ اترا وہ کہنے لگی :

کیا پہلی ہی ملاقات میں نئی نویلی دلہن کو کوئی ایسا گفٹ دیتا ہے ؟میں اپنی سہیلیوں کو کیا بتاتی سب مجھے شرمندہ کرتی رہیں!!کسی کو گاڑی ملی کسی کو آئی فون اور کسی کو ہیرے کی انگوٹھی ( ڈائمنڈ رنگ).

بلال بولا: عائشہ !تم نے تصویر کا ایک ہی رخ دیکھا ہے کیا میں جان سکتا ہوں دو سال قبل بیاہنے والی تمہاری تینوں سہیلیاں آج کس حال میں ہیں ؟

 مطلب؟

عائشہ چونکی۔۔۔۔۔

مطلب یہ کہ ایک کا شوہر پہلے سے شادی شدہ تھا ظاہر منہ دکھائی میں گاڑی تو بنتی تھی

دوسری کو جاتے ہی جاب کرکے گھر پر خرچ کرنے کا کہا گیا

اور تیسری کا شوہر اسمگلر ہے!!!!

ہاں مجھے یہ سب معلوم ہوا تھا مگر میں نے نظر انداز کر دیا ۔

عائشہ کی آواز میں ایک تھکن اتر آئی تھی۔

تو سنو پانچ ماہ میں یہاں تمہیں شہزادی کے روپ میں بٹھایا گیا۔

اور تم نے رشتوں کو چیزوں سے پرکھنا چاہا ہے۔تم نے سماج کی کہانیوں کو ادھورا پڑھا ہے۔تم نے    خود سے مقابلے کرنے والیوں کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ لیا ہے۔

 تم نے مجھے میری ساری مجبوریوں اور کمزوریوں کے ساتھ قبول نہیں کیا !!!!

 

 میں غلطی پر تھی

عائشہ کی آنکھیں بھیگ گئی۔

 

نہیں عائشہ تم غلطی پر نہیں تھی میں غلط تھا جس نے ایک نازک عورت کو زندگی کا یہ اہم سبق سمجھانے کے لئے اسے آزما لیا ۔

یہ رہی تمہاری ہیرے کی انگوٹھی اور تمہارا آئی فون!!!!

امید ہے اب تمہیں کوئی نہیں بہکا سکے گا!!!

 

رشتوں کو آزمانا نہیں چاہیے وگرنہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں مجھے اب ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں میرے دل سے دنیا کی چمک دمک نکل چکی ہے۔

بلال حیران تھا کیا عورت پل بھر میں اتنے بڑے مقام تک بھی پہنچ سکتی ہے جہاں تک کئی ریاضتوں کے بعد بھی مرد نہیں پہنچ سکتے۔

دنیا کا دل سے نکل جانا معمولی مقام تو نہیں ہوتا !

 

ٹھیک ہے تم تحفے کا تو انکار نہیں کر سکتی نا!

 

عائشہ نے بھیگی مسکراتی آنکھوں کے ساتھ تحفہ قبول کیا اور کہا:

 

سچ کہتے ہیں دنیا دل سے نکلتی ہے تو قدموں پر آتی ہے۔

بلال مسکرایا اور شرارت کے موڈ میں پوچھا:

اور شوہر دل سے نکل کر کہاں جاتے ہیں؟

 

عائشہ چہکی:

  واپس دل میں

 دل سے دل تک کا سفر چلتا رہتا ہے۔

 

بلال:

اور اس کی آخری منزل جنت ہے۔ میری بہتر حوروں کی سردار !!!