عمارہ فہیم  کراچی

” کیا آج ہی انہیں ڈیزائنر بنا کر بھیجو گی ؟ سردی کے دن ہیں ، شام ہوتی جارہی ہے اور دونوں بیٹھی ہوئی ہیں مزے سے ۔“

تائی جان نے مومنہ و اریبہ کو اشارہ کیا تو اریبہ جھٹ بھاگ کر گئی آگے سے تائی جان نے غصہ سے گھورتے ہوئے تنبیہ کی ۔

”جی جی ! امی بس بچیاں جا ہی رہی ہیں ، دن چھوٹے ہیں تو وقت جلدی سے ختم ہوجاتا ہے ، ہم بس سب سمیٹ کر آرہی ہیں ۔“

اریبہ نے آہستگی سے معذرت خواہانہ لہجہ میں معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی ۔

”جلدی آؤ دونوں! باتیں بگاڑنے نہ بیٹھ جانا ۔“

تائی جان نے گھورتے ہوئے کہا اور کچن کی طرف چلی گئیں ، پیچھے اریبہ نے اٹکا ہوا سانس بحال کیا اور مومنہ کی طرف دوڑ لگائی ۔

” چلو بھئی بچو! اب چھٹی کرو ۔

اور بہن تم بھی بس کردو اور کلاس سمیٹو چلو امی بلارہی ہیں ۔“

اریبہ نے بچیوں کو چھٹی دیتے ہوئے مومنہ کو بھی ماں کا پیغام پہنچایا ۔

”اتنی جلدی ! ابھی تو چھٹی کا وقت نہیں ہوا نا ! “

مومنہ نے حیران ہوکر اریبہ کو دیکھا ۔

”محترمہ سوا پانچ بج چکے ہیں، نماز کا وقت بھی نکل رہا ہے اور امی کی گھوریاں مل رہی ہیں ، اب جلدی سے سمیٹ کر نماز پڑھو اور چلو دیکھیں امی کیا کہہ رہی ہیں ۔“

اریبہ کی بات سن کر مومنہ نے بھی جلدی جلدی ہاتھ چلائے اور سب چیزیں سمیٹ کر نماز ادا کی اور اب دونوں ماؤں کے سامنے موجود تھیں ۔

”سردیوں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں ، اندھیرا جلدی ہوجاتا ہے ، اس لیے طالبات کے وقت کو بھی مختصر کرلیں آپ دونوں تاکہ روشنی میں ہی بچیاں اپنے گھروں کو چلی جائیں ، حالات بھی خراب رہتے ہیں اس لیے ان کی ماؤں تک پیغام بھیجیں کہ لانے لے جانے کی ترتیب بنائیں ، کوشش کریں ہماری وجہ سے کسی بھی قسم کی دوسروں کو پریشانی نہ ہو ۔“

تائی جان نے نرمی کا مظاہرہ کیا اور بہت اہم چیزوں کی طرف توجہ دلوائی ۔

”جی امی جی !

جی تائی جان ! ہم آج بچیوں کے ٹائم کی نئی ترتیب بناکر کل انہیں ساری چیزیں بتادیں گے اور یہ بھی کہہ دیں گے کہ  ماؤں  کو لے کر آئیں تاکہ ہم ان سے بات کرلیں ۔“

اریبہ و مومنہ نے فرماں برداری کا ثبوت دیا ۔

”شاباش ! اب جلدی سے ایک جاکر چائے کا پانی رکھو اور دوسری جاکر برتن دھو کر کچن سمیٹ لو ، مغرب کی نماز پڑھ کر فورا چائے نکال لینا اور آٹا گوندھ کر روٹیاں بنانے کی فکر کرو ،ایسا نہ ہو گیس لوڈ شیڈنگ ہو جائے گی تو روٹیاں بنانا مشکل ہو جائے گا ۔“

تائی جان ساری ترتیب دونوں لڑکیوں کو بتا کر کچن سے جاچکی تھیں ، اور پیچھے مومنہ و اریبہ کا سانس بحال ہوا انہیں لگا تھا آج ٹھیک والی  کلاس ہونے والی ہے ۔

رات کی ساری ترتیب سے فارغ ہوکر اب دونوں اپنے کالج کا کام کرنے کے لیے بیٹھی ہوئی تھیں ، اپنے اسباق یاد کرنے اور اسائنمنٹ تیار کرنے کے بعد اب رنگوں کی کلاس کا وقت متعین کرنے کا مرحلہ تھا ۔

کافی سوچ بچار کے بعد ساڑھے تین سے ساڑھے چار کا وقت دونوں کو موزوں لگا ، لیکن حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ماؤں سے مشورہ کرنا بہت ضروری تھا ،کیونکہ مشورے میں اللہ رب العزت نے خیر رکھی ہے اور بڑوں کی نگرانی اور ان کی سرپرستی میں رہ کر کوئی کام کرنا یہ مسائل سے بچانے میں ڈھال کا کردار ادا کرتا ہے۔

اگلے دن دونوں نے کلاس سے پہلے ماؤں سے وقت کے حوالےسے مشورہ کرلیا تھا اب اس پر عمل کا وقت تھا ۔

روزانہ کی طرح بچیاں اپنے وقت پر کلاس میں موجود تھیں ، مومنہ و اریبہ نے سب سے پہلے کام کو ترجیح دی تاکہ کلاس کے بعد بچیوں کو ساری ترتیب بتادی جائے اور وہ ان کے ذہن میں نقش ہو جائے ۔

”جی تو پیاری طالبات! کیسی ہیں سب ؟

اور کل جو ہم نے سیکھا اس کی کس کس نے پریکٹس کی۔“

مومنہ نے طالبات سے سوال کیا ۔

سب طالبات نے الحمدللہ کہا اور اپنے اپنے پریکٹس ورک پیس کو نکال کر باری باری مومنہ کو دکھایا ،جسے دیکھ کر مومنہ شاباشی بھی دیتی جارہی تھی اور جہاں کوئی کمی لگ رہی اس کی اصلاح بھی کررہی تھی ۔

مومنہ جس کپڑے پر پچھلے روز کام کررہی تھی وہ کپڑا کھول کر بچیوں کے سامنے لائی اور اسے ترتیب کے مطابق بچھا دیا ۔

”جی تو طالبات! یہ وہی کپڑا ہے جس پر ہم نے کل کام کیا تھا ، اسے دیکھیں اس پر کلر اچھی طرح فکس ہوگیا ہے، اب ہم اس کپڑے کو الٹا کرکے رکھیں گے اور اس پر استری کریں گے ، پھر سیدھے رکھ کر اس پر ایک سادہ کپڑا بچھا کر استری کردیں گے ۔“

مومنہ زبانی بتانے کے ساتھ ساتھ تیزی سے اس سب پر عمل کرکے دکھا رہی تھی ۔

”ٹیچر ! ایک سوال پوچھوں ۔؟“

کونے میں بیٹھی کلاس کی سب سے خاموش طالبہ نے قریب آکر بیٹھتے ہوئے اجازت طلب کی ۔

”ضرور !“

مومنہ اس کی طرح مکمل طور پر متوجہ ہوگئی ۔

”ٹیچر ! میری خالہ کہہ رہی تھیں کہ : اتنامہنگا سامان و کپڑا خرید کر اس پر اتنی محنت سے کام کرنے کا کیا فائدہ ؟ یہ تو بس سامان اور وقت کی بربادی ہے ، آج کل کوئی بھی ایسی ہاتھ کی بنی چیزیں نہیں لیتا اور اگر کوئی لے بھی تو جتنا وقت ، سامان ،محنت لگی ہوتی ہے ، اس کا آدھا بھی وصول نہیں ہوتا ۔“

اس بچی کے چہرے اور باتوں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اپنی خالہ کی باتوں سے شدید متاثر ہوئی ہے اور ایسے بچے یا بڑے کو سمجھانا یا کوئی بات بتانا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، کیونکہ اگر وقت پر تسلی بخش جواب نہ دیا جائے تو ذہن الجھن کا شکار ہوجاتا ہے اور ایسی الجھن کئی مرتبہ پریشانی کا سبب بھی بن جاتی ہے ۔

”ہممم ! پتا ہے جب میں اس طرح کے کورس کررہی تھی تب مجھے بھی لوگ ایسی ہی باتیں کہا کرتے تھے جس سے میں دل برداشتہ ہوجاتی تھی پھر میری ٹیچر اور امی نے بہت اچھی بات کہی وہ میں آج آپ سب کو بتاتی ہوں ۔

آپ کی بات ایک حد تک درست ہے کہ ہم ہاتھ سے محنت کرکے اپنا وقت اور پیسے لگا کر چیز خریدتے اور بناتے ہیں جس پر ہمیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ لوگ ہاتھ کے کام کو پسند نہیں کرتے یا ہنر اور ہنر مند کی قدر نہیں ہوتی ، ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں قدر کروانے سے قدر بڑھتی ہے ، ابتداء میں ہر کام میں وقت اور پیسہ صرف ہوتا ہے لیکن جب اچھا کام کرکے دیتے ہیں تو لوگ آپ کے کام اور آپ کے عادی بن جاتے ہیں اس کے بعد آپ اپنے مطابق فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں ، آپ اچھا برینڈ بنا سکتی ہیں ، آپ کوئی ادارہ بناکر وہاں یہ سارے ہنر سکھا سکتی ہیں خیر یہ تو تھی ایک بات اور دوسری بات یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر چیز صرف پیسہ کمانے کے لیے ہی سیکھی جائے کچھ چیزیں اپنے دلی سکون کے لیے بھی ہوتی ہیں جیسے علم ! علم ہمارے اندر اور باہر کو روشن کرکے ہمیں سنوار دیتا ہے اسی طرح کوئی ہنر ہو تو وہ ہماری شخصیت میں مزید نکھار پیدا کرتا ہے ، اور رہی بات ٹیکسٹائل، فیبرک پینٹنگ ورک کی تو میں شروع میں یہ بات عرض کرچکی ہوں کہ رنگوں کے ساتھ ہر ایک کی دوستی نہیں ہوسکتی ، ہر کوئی رنگوں کی زبان نہیں سمجھ سکتا بہت کم لوگ ہی رنگوں کی اس زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔

رنگ ہمارے موڈ کو فریش کرتے ہیں، ذہن کو پرسکون کرتے ہیں ، تو ضروری ہے کہ ہم کسی اور کے لیے ہی کام کریں یا وہ ہی کریں جیسا اردگرد موجود لوگ کررہے ہیں یا چاہ رہے ، اس لیے دوسروں کی طرح بننے اور دوسروں کے جیسا ورک کرنے کے پیچھے بھاگنے سے بہتر اپنی ایک اچھی اور نئی پہچان بنائیں، کبھی غلط کام نہ کریں نہ کبھی غلط چیز کو پروموٹ کریں ، صحیح اور اچھا کام کریں تو آپ دیکھیے گا آپ کی پہچان بھی بنے گی ، عزت بھی ہوگی اور آپ کو فائدہ بھی پہنچے گا ۔

مومنہ نے بہت آرام سے آسان لفظوں میں مریم کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا جس سے نا صرف مریم بلکہ باقی طالبات مطمئن بھی ہوئیں اور کام کے لیے پرجوش بھی ۔

”چلیں اب بہت باتیں ہوگئی ہیں ، ہم اپنے دوسرے پریکٹیکل کی طرف آتے ہیں ، پچھلی کلاس میں ہم نے جھنڈا بنایا تھا ، آج ہم پھول بنانا، اس کی آؤٹ لائن اور فلنگ سیکھیں گے ۔

سب سے پہلے ہم پھول ڈرا کریں گے اس کے لیے ہم دو طریقے استعمال کرسکتے ہیں ،ہاتھ سے پینسل کی مدد سے خود بھی ڈرا کرسکتے ہیں اور کسی اسٹینسلز (جس پر پھول، بیل وغیرہ بنی ہوتی ہے یعنی چھاپے ) کو رکھ کر ٹریس بھی کرسکتے ہیں ، ہم کیونکہ آج بہت مشکل پھول یا بیل نہیں بنائیں گے آسان سا پانچ پتی کا پھول بنائیں گے اس لیے اسے پینسل سے ہی ڈرا کریں گے ۔“

مومنہ نے ڈیزائن کو ڈرا کرنے کے دونوں طریقے بچیوں کو سمجھاتے ہوئے کپڑے پر پینسل کی مدد سے پہلے چھوٹا سا گول دائرہ بنایا پھر دائرے کے ساتھ پتے کی شکل میں پانچ پتیاں بنائیں پھر بچیوں کے سامنے کلر کرنے کے لیے سامان نکال کر رکھا ۔

”جی تو طالبات اب مجھے باری باری بتاتی جائیں کہ اب تک ہم نے جن کلرز کے بارے میں پڑھا ان میں سے یہاں اس پھول میں کون سا کلر اچھا لگے گا اور کلر کیسے بنائیں گے ۔؟“

”ٹیچر ! نیلا رنگ لگائیں اور درمیان میں سفید لگائیں ۔

نہیں ٹیچر ہرا رنگ لگائیں اور درمیان میں پیلا

ایسی کئی آوازیں ابھریں ان ہی میں ایک چھوٹی سی بچی کی آواز تھی کہ یہ پھول پیلا اچھا لگے گا۔

تو مومنہ مسکرائی اور اس بچی کو شاباشی دی اب دوسرے سوال کی باری تھی اس میں سب بچیوں نے صحیح جواب دیا ۔

”ٹیچر ! پہلے کلر دو قطرے لیں گے پھر اس میں دو سے تین قطرے بائینڈر ملائیں گے اچھی طرح مکس کرکے کپڑے پر اپلائی کریں گے ۔“

مومنہ نے بچیوں کو شاباشی دی اور پیلا رنگ بنا کر پورے پھول میں فلنگ کی ،  برش سے سفید کلر ہلکا ہلکا لگا کر آؤٹ لائن دیتے ہوئے لائن کے ساتھ ہی اندر کی طرف برش سے لائٹ لائٹ شیڈ دیا اور اس کپڑے کو سوکھنے کے لیے رکھ کر بچیوں کو کلاس کی نئی ٹائمنگ بتانے کے بعد کلاس کا اختتام مجلس کی دعا (سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للّٰہ رب العالمین) پڑھتے ہوئے کیا ۔

جی تو قارین!  امید ہے آج کی تحریر اور تحریر میں سکھایا گیا کام آپ کو سمجھ آیا ہوگا تو آپ نے کب یہ ڈیزائن بنانے کا سوچا ہے ۔؟