وہ کسی تیز رفتار ٹریفک والی سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ ہر طرف بہت رش تھا، بڑی بڑی بسوں اور ٹرینوں جیسی گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ وہ پریشان تھی، سڑک عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی

  مہوش کرن

 وہ اپنے واکر کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر کچھ تھا جیسے کوئی خاص بات ہو. وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں، کچھ بتانا، کچھ سمجھانا چاہتی تھیں۔ وہ چپ چاپ ان کے قریب آنے کا انتظار کرتی رہی۔ لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے دل میں بےچینی بڑھ رہی تھی جانے وہ کیا بات کہنا چاہتی ہیں۔ اس نے چاہا کہ دوڑ کر ان کے پاس چلی جائے، واکر ہٹا کر اپنے ہاتھوں سے انہیں سہارا دے، لیکن اسے لگا اس کے ہاتھ پاؤں جم گئے ہیں۔ بےتحاشا کوشش کی لیکن وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی۔

جس لمحے وہ اس کے بالکل قریب پہنچ چکی تھیں، اس نے نظریں اٹھا کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا چکی تھیں۔ 

وہ مختصر سا خواب ختم ہو چکا تھا۔۔

 

٭٭٭٭٭

 

اتنے سالوں پہلے دیکھا وہ خواب دل پر نقش ہو گیا۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھیں؟ ایک معما ہی رہ گیا۔ اس زندگی میں ہر بات کہاں کہی اور سنی جا سکتی ہے۔ بہت کچھ ان کہا، ان سنا رہ جاتا ہے۔

وہ ان سے ملنے ہی تو جا رہی تھی۔ اور اسی جگہ ان کے قریب بہت قریب رہنے جا رہی تھی۔ لیکن وہ خود ہی اس سے دور بہت دور چلی گئیں۔ ایک بیٹی جب اپنی ماں سے آخری بار مل نہ پائے تو جذبات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ بھی تو ایک بیٹی تھی اور ماں کے پاس مستقل جانے کی تیاریوں میں تھی۔ لیکن کون جانتا تھا کہ اس کی ماں کہیں اور کی تیاریوں میں تھیں۔

 

اب دل کو تسلی دینی تھی سو یہی سوچتی کہ وہ کچھ سمجھانا چاہتی ہوں گی۔ کہنا چاہتی ہوں گی کہ

”بے شک تم میرے قریب آنا چاہتی تھی اور میں بھی خوش تھی کہ اب تم میری نظروں کے سامنے رہو گی لیکن تقدیر کو یہ منظور نہ تھا سو میں تمھارے آنے سے پہلے ہی جا رہی ہوں۔ یا یوں کہہ لو کہ جب تک تم پہنچو گی میں جا چکی ہوں گی۔ بہرحال ہونا تو یہی تھا اور اسی میں کوئی بہتری ہوگی۔ بس اُسی بہتری کو سمجھنے اور ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہنا، مشکل ہوگی لیکن ناممکن کچھ بھی نہیں۔“

یہی سوچتے زندگی کے کئی سال بیت گئے اور وہ مشکل حالات میں بھی چھپی خیر ڈھونڈتی رہی. کوشش کرتی رہی کہ کبھی ہمت نہ ہارے، ہاں تھک جاتی تھی لیکن لگن ٹوٹنے نہ دیتی تھی۔

 

٭٭٭٭٭٭

 

وہ کسی تیز رفتار ٹریفک والی سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ ہر طرف بہت رش تھا، بڑی بڑی بسوں اور ٹرینوں جیسی گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ وہ پریشان تھی، سڑک عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ کبھی آگے ہوتی، کبھی پیچھے، ہر بار قریب سے کوئی سواری زن سے گزرتی اور ٹکراتے ٹکراتے بچتی۔ ایک بار تو وہ بال بال بچی، اسی ادھیڑ بُن میں کھڑی تھی کہ کیا کرے۔ اچانک دو وجود اس کے دونوں طرف آ کر کھڑے ہو گئے۔ وجود بھی کوئی اور نہیں بلکہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا اور مضبوط سائبان جو اب اس دنیا سے اٹھ چکا تھا۔ وہ دونوں وجود، یعنی اس کے ماں باپ اس کی دنیا سے جا چکے تھے۔

 

وہ حیران ہوئی کہ وہ کہاں سے اور کیسے آ گئے۔ لیکن حیران ہونے کے علاوہ وہ خوش بھی ہوئی کیونکہ وہ اس کے ساتھ چلنے لگے تھے۔ جانے کون کون سے راستے عبور کروا دیے، کیسی کیسی مشکل سیڑھیاں، دشوار گزار راستے آئے وہ ان دونوں کا ہاتھ تھامے ہر راستہ طے کرتی آگے بڑھتی گئی۔ اچانک سامنے اک پہاڑی آ گئی. دونوں نے اسے مسکرا کر دیکھا اور اوپر چڑھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کی بات بھلا کیسے ٹال سکتی تھی، چڑھنا شروع ہوئی وہ دونوں بھی ساتھ تھے۔ تینوں ہانپتے جاتے لیکن ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے اور اوپر کی طرف قدم بڑھاتے۔ وہ یونہی چلتے رہے جب تک کہ اس پہاڑ کی چوٹی تک نہیں پہنچ گئے۔ اوپر کچھ برابر سی جگہ تھی جہاں وہ بیٹھ سکتی تھی۔ اس نے سانس بحال کر کے مسکراتے ہوئے ارد گرد دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں تو ساتھ نہیں، بلکہ جا چکے تھے۔

اُسی لمحے اس کی آنکھ کھل گئی اور معلوم ہوا کہ وہ خواب تھا۔۔

ایک بار پھر خواب ختم ہوچکا تھا۔۔۔

حقیقت اس کے سامنے تھی، وہ جا چکے تھے اور حقیقت میں وہ اپنی پھولی ہوئی سانس درست کرنے اور ماتھے پر آیا پسینہ پونچھنے لگی۔

 

٭٭٭٭٭

 

اسے حیرت تھی کہ وہ تو سو رہی تھی پھر سانس کیسے پھولی اور پسینہ کیونکر آیا، لیکن سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ اُسے عموماً خواب میں نظر نہیں آیا کرتے تھے البتہ مسنون اذکار کے بعد رات کو سونے سے پہلے جو آخری اور صبح اٹھتے ہی جو پہلی بات اس کے ذہن میں آتی وہ ان دونوں سے متعلق ہی ہوا کرتی۔ مگر وہ تو اپنی سوچ ہوتی تھی شاید اسی لیے خواب میں انہیں دیکھنے کا دل چاہنا فطری بات تھی، لیکن وہ اس کا انتظار کبھی نہیں کرتی تھی۔ بلاوجہ چیزوں سے دل لگانا چھوڑ چکی تھی، دل اللہ سے جو لگا لیا تھا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ جب کبھی کبھار خواب میں آتے تو کوئی نا کوئی پیغام دے جاتے۔

 

یہ بھی تو کتنا معنی خیز خواب تھا جو اپنے اندر بڑا گہرا مطلب لیے ہوئے تھا کہ

”چاہے راستے میں کتنی ہی مشکلیں آئیں سفر رکنا نہیں چاہیے۔ جیسے ہم پہلے تمھارے ساتھ تھے، تمھاری رہنمائی اور مدد کرنے کے لیے موجود تھے اسی طرح آج اور آئندہ بھی ہمیں اپنے قریب سمجھو اور آگے بڑھتی جاؤ۔ راستے چاہے کتنے دشوار گزار ہوں تم آگے سے آگے قدم بڑھاتی چلو. اوپر سے اوپر بلندیوں کی طرف محوِ پرواز رہو جب تک تم اپنی منزل پر نہ پہنچ جاؤ۔

 

یہ سفر تم کسی دوسرے کی مدد سے زیادہ اپنے یقین کی بدولت پایۂِ تکمیل تک پہنچا سکو گی۔ کیونکہ درحقیقت یہ سفر تم اکیلے ہی کر رہی ہو، لوگ تو آتے جاتے رہیں گے۔ کوئی مستقل نہیں ٹھہرے گا، جو ہمیشہ رہے گا وہ اللہ کے بعد تمھارا خود پر بھروسا ہوگا۔ اس لیے آنے جانے والوں کی پروا کر کے راستے میں رک مت جانا، کسی کے جانے سے دل برداشتہ ہو کر تھم مت جانا، کسی کے ساتھ نہ دینے کے غم میں ٹھہر مت جانا بلکہ تمھارا کام آگے سے آگے بڑھنا ہے۔ البتہ راستے میں اگر کسی دوسرے کو مدد کی ضرورت ہو تو اپنا ہاتھ ضرور دینا، جسے سہارے کی ضرورت ہو اپنا کاندھا ضرور دینا، جسے ہمت کی ضرورت ہو اپنی مسکراہٹ ضرور دینا۔

 

دیکھو ابھی بھی تو دراصل تم اکیلی تھیں اور اس چوٹی تک پہنچ گئی۔ آگے بھی تمھیں ایسے ہی ہر بلندی تک پہنچنا ہے۔ سفر جاری رکھنا ہی تمھارا مقصد ہے، چلتے رہنا ہی تمھارا کام ہے اور بلندیاں ہی تمھاری دائمی منزل ہیں۔ کیونکہ منزل پر جو ملنے والا ہے وہ ان دیکھا اور انجانا ہے جس کا تجسس تمھیں آگے بڑھانے والا ہونا چاہیے۔ یاد رکھو کہ یہ تجسس تمھاری ہمت کو دو چند کر دے۔ خود سے مت اندازے لگانا کہ کیا ملے گا اور کیا نہیں کیونکہ غیب کا علم تو صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ تم بس امید لگائے رکھنا کیونکہ تجسس ختم ہو جائے تو منزل پر پہنچنے کی جستجو ختم ہو جاتی ہے اور سفر روگ بن جاتا ہے. البتہ امید بندھی رہے تو سفر وبالِ جان نہیں بنتا بلکہ جان سے پیارا ہو جاتا ہے۔ تم یہ ثابت کر کے دکھانا اور اپنے یقین کی مضبوطی سے بلندیوں کی مکین بن جانا، ان شاءاللہ۔“

 

٭٭٭٭

 

وہ مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی. اک نیا دن، اک نئی شروعات اس کی منتظر تھی۔ اور وہ اللہ کے بعد خود پر یقین کے بھروسے یہ ثابت کر دینا چاہتی تھی کہ وہ کر سکتی ہے۔

 

بالکل اسی طرح جیسے یہ پڑھتے ہوئے آپ سوچ رہی ہیں کہ

کیا آپ بھی یہ کر سکتی ہیں۔؟

 

تو جواب بھی آپ کے پاس ہی موجود ہے کہ

ہاں میں بھی یہ کر سکتی ہوں۔

 

جی ہاں، ہم یہ کرسکتے ہیں۔

 

سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے

اب آسمان تلک راستہ بنانا ہے