(آخری حصہ )

 شادی کے سترہویں دن دولہا اپنی دلہن کو اس کی ماں کے ہاں تب تک کے لیے چھوڑ کر گیا تھا جب تک وہ سب کچھ اچھی طرح سیکھ نہیں جاتی۔

 بنت مسعود

شیراز جیسے شریک سفر کو پاکر نرمین بہت خوش تھی۔اس کی ساس اور جیٹھانی عالیہ دونوں ہی اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔صفائی کے لیے ماسی آیا کرتی تھی۔کھانا ساس اور جٹھانی مل کر بناتی تھیں۔سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا کہ شادی کے تقریبا دو ہفتے بعد ساس نے نرمین سے ویسے ہی کبابوں کی فرمائش کردی جو وہ ان کے یہاں کھاکر آئی تھیں۔اور ساتھ شیرخورمے کی۔۔۔اس دن اس کی بڑی نند  میکے آئی ہوئیں تھی۔نرمین کے تو وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ اسے اتنی جلدی کچن کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق اس نے کمرے میں جاکر جلدی سے بھابھی کا نمبر ملایا اور کبابوں کی ریسیپی پوچھی۔جو حبہ نے کافی دیر مغز کھپا کر اس کو سمجھائی۔ پھر لکھ کر روانہ کی مگر اس طرح کی چیزیں کوئی پہلی بار پرفیکٹ نہیں بناکرتیں اگر جو پکانے والا اناڑی ہو اور پھر وہی ہوا جس کا نرمین کو ڈر تھا۔گوشت اور دال کا عجیب مرغوبا سا تیار کرکے وہ سر پکڑے کھڑی تھی جبکہ شیر خورمہ سویوں کی زیادتی سے اتنا سخت ہوچکا تھا کہ چمچہ چلانا مشکل ہورہا تھا۔

ساس منتظر تھیں کہ ابھی بہو صاحبہ گرماگرم شامی کباب پیش کریں گے جنہیں کھاکر ان کا بیٹا انگلیاں چاٹ لے گا۔۔مگر کافی دیر گزرنے کے بعد  جب نرمین باہر آئی تو اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے اور چہرے پر شرمندگی اور مایوسی کے آثار۔۔۔

"کیا ہوا بہو۔۔"۔ساس پریشان ہوکر پوچھنے لگیں۔

"امی مجھ سے کبابوں کا مسالاخراب ہوگیا۔"

وہ اتنا کہہ کر بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔ساس جٹھانی اور نند حیرت سے نئی نویلی دلہن کو تک رہی تھیں۔اچانک اسی وقت کمرے میں شیراز نے قدم رکھا تھا۔

"کیا ہوا نرمین؟"فکرمندی اس کی آواز سے چھلک رہی تھی۔۔۔۔

"کچھ نہیں بھیا۔۔ کبابوں کا مسالا ٹھیک سے بنا نہیں اور نرمین پریشان ہوکر رو دی۔" بہن نے بات بنائی۔

ساس امی نے اٹھ کر اسے چپ کروایا۔۔۔پیار سے پچکارا اور نرمی سے کہا۔

"پریشان مت ہو رو مت ۔۔۔نئی جگہ آکر ذرا ہاتھ سیٹ ہونے میں مشکل ہوتی ہے۔۔۔ابھی ٹھیک نہیں بنا تو اگلی بار بن جاۓ گا۔"

شیراز کچھ سوچ کر چپ چاپ اٹھ کر کچن تک چلا آیا۔۔۔کچن اس بری طرح پھیلا تھا کہ گویا یہاں کوئی دنگل کرکے نکلا ہو۔چولہے پر دودھ گرا تھا اور چولہے کے اردگرد کئی جگہ سویاں بکھری پڑیں تھیں۔

پتیلی کا ڈھکن اٹھایا تو پتلی سی دال میں گوشت کی بوٹیاں تیر رہی تھیں۔

"ماشاءاللہ اتنی بہترین کباب بنے تھے بالکل پرفیکٹ کھا کر مزہ آگیا۔"

"ہمممم واقعی میکرونی بھی بڑی چٹپٹی تھی۔ "

دونوں بہنیں جب نرمین کو دیکھ کر آئی تھیں تو اس کی صورت سیرت کے ساتھ اس کے پکاۓ کھانوں کی تعریف میں بھی رطب اللسان تھیں۔

شیراز کو چند منٹ لگے تھے بات کی تہ تک پہنچنے میں اور ایک فوری فیصلہ کرکے وہ کمرے کی طرف واپس پلٹ آیا تھا۔

"تو تم پکانا نہیں جانتیں، ہے نا؟"وہ نرمین کے سامنے کھڑا سرد لہجے میں پوچھ رہا تھا۔

ساس نندوں کی ہمدردیاں بٹورتی نرمین نے حیرت سے مجازی خدا کو دیکھا۔

"نہیں بس وہ۔۔۔میں نے یہاں پہلی بار۔۔۔"وہ منمنائی۔

"نہیں ایسا نہیں۔۔۔تم نے اپنے گھر میں بھی کبھی کباب نہین بنائے۔۔۔سچ بولنا۔۔"۔اس کی آواز میں عجیب سی سختی اتر آئی۔

"شیراز آرام سے۔"ساس نے بیچ میں مداخلت کی۔۔۔

"امی اس سے بولیں کے میری بات کا سچ سچ جواب دے۔"

"وہ کہہ تو رہی ہے کہ۔۔۔"

"وہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔اور آپ جانتی ہیں مجھےجھوٹ سے نفرت ہے۔۔"

"غلطی میری نہیں ہے مجھے معاف کردیں۔۔۔مجھے کوکنگ نہیں آتی یہ میری امی نے۔۔۔ ۔کہا کہ ۔۔۔وہ اتنا کہہ کر پھر سے رونے لگی۔سب نے انتہائی حیرت سے اس کے منہ سے نکلے الفاظ پر اسے دیکھا۔

"ہوں۔۔۔مجھے کچن کی حالت دیکھتے ہی تمہارے اناڑی پن کا اندازہ ہوچکا تھا۔اگر تم اب بھی سچ نہ کہتیں تو بدلے میں بہت کچھ بھگت سکتی تھیں۔"

"تمہاری امی کو کیا ضرورت تھی ایسا کرنے کی بولو۔۔"وہ درشتی سے بولا۔

"شیزار چھوڑو بات کا بتنگڑ مت بناؤ۔۔۔سب سیکھ جائے گی آہستہ آہستہ۔"۔اماں بیٹے کے غصیلے مزاج سے خوب واقف تھیں۔

"ہاں شیراز ایسی بھی کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔جاؤ نرمین  منہ ہاتھ دھو کر آؤ۔"

وہ جٹھانی کی بات سن کر مرے مرے قدموں سے کمرے سے نکل گئی۔

★**★

"پاگل ہوۓ ہو شیراز۔۔۔اتنی بڑی اس کی غلطی نہیں جتنی بڑی تم اس کے لیے سزا تجویز کر رہے ہو۔"فرح اس کی بات سنتے ہی ٹوکے بنا نہ رہ سکیں۔

"آپا بات کو سمجھیں۔۔۔یہ کوئی معمولی بات نہیں میرے نزدیک۔۔۔"

"شیراز فرح ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔ہماری رشتے داری بھی خواہ مخواہ بدمزگی ہوگی۔۔۔اور ابھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔"

"آپ لوگ جو بھی کہیں۔۔۔میں کھانے کے معاملہ میں کمپرومائز کر لیتا مگر جھوٹ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔"وہ حتمی لہجے میں کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔اماں جانتی تھیں ان کا بیٹا اپنی بات کا پکا ہے جو وہ کہہ چکا ہے وہ کرکے ہی دم لے گا۔

فرح نے شکوہ کناں نظروں سے اماں کو دیکھا جو بیٹے کی بات کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور تھیں۔

★**"★

یوں شادی کے سترھوے دن دولہا اپنی دلہن کو وہ سب کچھ سیکھنے کے لیے تب تک کے لیے چھوڑ کر گیا تھا جب تک وہ اچھی طرح سیکھ نہیں جاتی اور سب سے بڑا سبق تو وہ اپنی ساس محترمہ کو سکھانا چاہ رہا تھا۔

اماں کلیجہ تھامے بیٹھیں تھیں اور تیمور سر۔۔۔۔

 جبکہ نرمین کا رو رو کر برا حال تھا۔رہ گئ حبہ تو دکھ تو اسے بھی تھا مگر جانے کیوں نرمین اور ساس کو پریشان دیکھ اس کو ایک عجیب سا سکون مل رہا تھا۔۔وہ جو ہمیشہ اس کے ساتھ برا کرتی آئیں تھیں اب ان کی بازی ان پر ہی الٹ چکی تھی۔

میرا دل جس طرح دکھاتی تھیں اب پتا چلا کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی۔

★**

"دیکھا آپ نے امی کے جھوٹ کا خمیازہ نرمین کے حصے آگیا ہے۔کل کو وہ جھوٹ نہ بولتیں تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور نرمین بیگم اگر کککچھ۔۔۔۔"

وہ اور بھی کچھ کہنے جارہی تھی کہ اس کی نظر طیش کے عالم میں گھورتے تیمور پر پڑی اور چلتی ہوئی زبان کو گویا بریک لگ گئی۔

"یہ میری آخری وارننگ ہے حبہ۔۔۔اگر اب تم نے میری ماں بہن کے بارے میں کچھ بھی کہا تو میں یہ بھول جاؤگا کہ۔۔۔۔"

وہ اتنا کہہ کر سختی سے لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔شدت ضبط سے اس کا چہرہ لال ہوا جارہا تھا۔

آج صبح ہی شادی کے سترہ دن بعد اس کی بہن نرمین واپس اسی گھر میں آچکی تھی جہاں سے اسے پوری شان و شوکت کے ساتھ وداع کیا گیا تھا۔

اس کا شوہر اچھے کھانوں کا دلداہ تھا اور مزےکی بات اسے باہر کے کھانوں سے زیادہ گھر میں پکے کھانے پسند تھے۔شیراز کی امی اور بہنیں بہت اچھا کھانا پکالیتی تھیں۔

جب نرمین کو دیکھنے وہ پہلی بار آئیں تو گھر کی بنی تمام چیزیں انہیں بہت پسند آئیں اور سب سے بڑھ کر وہ اس بات پر مطمئن ہوگئیں کہ نرمین کھانا بنانا جانتی ہے۔وہ اپنے بھائی کی عادت سے خوب واقف تھیں اور اس کے لیے ایسی ہی لڑکی چاہتی تھیں جو شکل و صورت اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ پکانا بھی جانتی ہو۔

ادھر نرمین کی امی نے آنے والی خواتین کے سامنے بیٹی کی جھوٹی تعریفیں کردیں حالانکہ وہ تو ابھی دال سبزی بھی پوچھ پوچھ کر پکاتی تھی۔کیونکہ اماں تو اسے ابھی بہت چھوٹا سا ہی سمجھتی تھیں جبکہ اس کی عمر کی کئی لڑکیاں اپنے گھر اور بچے سنبھال رہی تھیں۔

★***★

دوسرے دن اس نے موقعہ پاتے ہی امی کو فون ملایا۔حبہ کی بات سن کر واسعہ بیگم کو بہت دکھ ہوا کہ نرمین گھر واپس آچکی ہے۔

جس پر حبہ نے اپنے ساتھ کی جانے والی ساری ناانصافیاں اماں کے گوش گزار کردیں۔

یہ سب باتیں ان کے لیے نئی تھیں کیونکہ آج تک حبہ نے ان سے ساس نند کی کوئی برائی نہیں کی تھی مگر آج وہ انہیں حیران کر دینے کے درپے تھی۔

اب تو حبہ اکثر فون کرکے اپنے دکھڑے رونے لگی تھی۔

"نرمین تو پہلے بھی کام چوری کیا کرتی تھی اب تو دسترخوان تک نہیں لگاتی سارا دن پڑی رہتی ہے سوگ میں۔۔۔کھانے کے وقت آکر کھانا کھاکر فورا کمرے میں واپس چلی جاتی ہے۔"

"ایک ہفتہ ہوگیا اسے آۓ مگر کچھ سیکھنے کی فکر ہی نہیں"۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔واسعہ بیگم  ہر وقت کی شکایتیں سن سن کر پریشان آگئی تھیں۔

★**★

تیمور نے چند دن اس سے بالکل بات نہیں کی اور وہ بھی چپ سادھے رہی مگر کب تک؟؟؟

دونوں پھر سے ٹھیک ہوگئے مگر اب حبہ محتاط ہوچکی پھی اس دن تیمور نے غصے میں جو الفاظ کہنے چاہے تھے وہ ان کا مطلب بخوبی سمجھ چکی تھی۔

★***★

"اوہ ماشاءاللہ۔۔۔آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہوئے ہیں۔"حبہ اس دن ماں کے گھر رکنے آئی تھی۔ امی کے کمرے میں قدم رکھتے ہی خالہ بی کو بیٹھا دیکھ وہ خوشی سے چہکی اور ماہا کو امی کی گود میں دے کر  ان سے لپٹ گئی۔

"قاسم کہاں ہے؟" امی نے نواسے کا پوچھا۔

"وہ باہر حرا کے کھلونے پڑے دیکھ ان میں مگن ہوگیا ۔"اس نے بیٹے کی بابت بتایا۔

"اور سناؤ۔۔۔کیسی ہو؟سسرال میں سب ٹھیک ہیں۔بڑا عرصہ ہوا نجمہ سے ملاقات ہوۓ۔"

خالہ بی  نے کہا۔

"جی بس کیا کہیں۔۔۔خیریت ہی ہے۔"وہ بے دلی اور کچھ کچھ تلخی سے بولی۔

واسعہ بیگم نے معنی خیزی سے بہن کی جانب دیکھا۔وہ تاسف سے سر ہلاگئیں۔

 

★*★

ہادیہ خاتون ایک جہاندیدہ عورت تھیں اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں ان کے خود کی کوئی اولاد نہ تھی مگر وہ بہن بھائیوں کے بچوں کو بالکل اپنے بچوں کی طرح چاہتی تھیں ہر ایک کا خیال رکھتیں اور محبت سے پیش آتیں یہی وجہ تھی کہ وہ ایک ہر دل عریز شخصیت تھیں۔

واسعہ بیگم حبہ کی باتوں سے الجھن کا شکار تھیں اور انہیں اس کا کچھ حل سجھائی نہ دیا تو بڑی آپا کو فون کرکے ساری پریشانی انہیں بتائی۔کچھ دیر تک تو وہ بھی چپ ہوگئیں۔سسرال میں ہر لڑکی کو ہی بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے جب دو سگی بہنوں کے مزاج الگ الگ ہوتے ہیں تو پھر ساس نند دیوانی جٹھانیوں کے ساتھ بھی اختلافات ہوہی جاتے ہیں۔۔۔

واسعہ چاہتیں تھیں کہ آپا حبہ کو سمجھائیں کیونکہ وہ اپنے طور کئی دفعہ حبہ کو سمجھاچکی تھیں مگر وہ ان کے سمجھانے پر یا تو رونے لگ جاتی یا پھر ان سے ناراض ہوکر کئی کئی دن بات نہ کرتی ۔واسعہ بیگم تیمور کی عادتوں  سے اچھی طرح واقف تھیں وہ نہ صرف اچھے اخلاق و اطوار کا مالک بلکہ شریف اور محنتی بھی ہے۔۔وہ ان ماؤں میں سے نہ تھی جو بیٹی کی ہمدردی اور محبت میں ان کی ہر اچھی بری بات میں اس کا ساتھ دیتیں اور طرف داری کرتیں ہیں۔جہاں لڑکی کے ماں باپ یا بہن بھائی سسرال کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں تو اکثر گھر اسی طرح کی بےجا مداخلت سے بکھر جاتے ہیں۔

★***★

رات میں وہ بچوں کو سلاکر خالہ بی اور امی کے پاس آبیٹھی امی خالہ سے اون کی مدد سے کوئی نیا ڈیزائن بننا سیکھ رہی تھیں۔

"واہ خالہ بڑا پیارا ڈیزائن سکھارہی ہیں آپ تو امی کو۔۔۔"اس نے تعریف کرتے ہوے کہا۔

"تمہیں پسند آیا تو تم بھی سیکھ لو۔"وہ خوش دلی سے بولیں۔

"نہ بھئی بچوں کے ساتھ یہ سب کرنا آسان نہیں ہے اور یہ کام تو بہت ہی مشکل ہے۔"

"مشکل کچھ نہیں ہوتا بس ہمیں لگتا ہے۔۔۔میں بھی تو کر رہی ہوں۔۔۔مگر مجھے یہ مشکل نہیں لگ رہا کیوں۔۔۔کیونکہ میں اسے مشکل نہیں سمجھتی۔"امی  ڈیزائن کو باغور دیکھتے ہوۓ گویا ہوئیں۔

"یہ دیکھو یہ سب اونی ڈوریاں ایک خاص طریقے سے باہم مل رہی ہیں اور جدا ہورہی ہیں تو ایک بہترین نمونہ وجود میں آرہا ہے اگر جو ایک ڈور بھی غلط پھر جاۓ تو سارا ڈیزائن خراب ہوجاۓ گا اور محنت اکارت جاۓ گی۔"

"ہاں یہ تو ہے ایک ذرا سی غلطی سے سب کئے کراۓ پر پانی پھرجاتا ہے اور ساری محنت اکارت جاتی ہے۔وہ کھوۓ کھوئے سے لہجے میں آہستگی سے بولی۔

"کیا ہوا حبہ ایک دم سے اتنی خاموش کیوں ہوگئیں۔"خالہ بی نے اونی سلائیوں سے نظریں اٹھاکر اس کے چہرے پر نظریں جمائے سوال کیا۔

"حبہ۔۔۔"امی نے اسے پکارا جو چہرہ نیچا کئے رونے میں مشغول تھی۔

کیا ہوا بچے؟؟؟ہادیہ خاتون سب کچھ جاننے کے باوجود اس سے ہی اس کا حال دل سننا چاہتیں تھیں۔

"کچھ نہیں۔۔۔بس یونہی۔"اس نے دوپٹے کے کنارے سے چہرہ صاف کیا۔

"یونہی نہیں کوئی تو وجہ ہے۔۔۔"

اتنے میں ماہا کے رونے کی آواز نے تینوں کو متوجہ کیا۔

حبہ اٹھنے لگی تو امی نے کندھا پکڑکر اسے واپس بٹھادیا۔

"تم بیٹھو میں دیکھ لیتی ہوں اسے۔"

"بولو حبہ۔۔۔"خالہ نے بات  وہیں سے شروع کی۔

بس۔۔۔خالہ۔۔۔میں اپنی زندگی کی ڈوروں کو کوشش کے باوجود الجھنے سے نہیں بچاسکتی۔۔پتا ہے میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک چلتا رہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔وہ بے بسی سے بولی۔

"انسان کا کام کوشش کرتے رہنا ہے۔۔۔۔تم ہمت کیوں ہارنے لگیں۔"

"کیا امی نے آپ کو کچھ بتایا ہے؟"

"ہاں واسعہ نے مجھ سے تمہاری پریشانی ڈسکس کی تھی اور آج اسی لیے میں یہاں آئی ہوں کہ اپنی پیاری بٹیا کی پریشانی بانٹ لوں۔"

اس نے مختصرا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی فہرست گنوادی۔

اس کی ساری بات سن کر وہ پوچھنے لگیں۔

"تیمور کیسا شوہر ہے؟کیا تم کو اس سے بھی کوئی شکایت ہے؟"

"یہ تو بہت خیال رکھتے ہیں میرا۔۔۔اور مجھے ان کی ذات سے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔مگر مجھے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی یہ میری حمایت میں کبھی ایک لفظ  نہیں بولتے۔"

"بیٹے ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں۔اس میں بیوی کی طرف داری کو غلط معنی پہنادیے جاتے ہیں۔اگر لوگوں میں غلط صحیح کا  اتنا شعور ہو تو وہ کسی کے ساتھ غلط رویے اپنائیں ہی کیوں اور چھوٹے موٹے اختلافات تو ہر جگہ ہوتے ہیں اگر تم ایسے ہی دل چھوٹا کرتی رہیں اور دل میں باتیں رکھتیں رہیں تو عداوتیں رنجشیں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔"وہ رسان سے بولیں۔

"ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم غلط نہ ہوتے ہوۓ بھی دوسروں کے غلط رویوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

"تلخ باتوں اور غلط رویوں کو درگزر کرکے معاف کرکے چلوگی تو سکون اور اطمینان کو اپنی زندگی میں پاؤگی اور اگر انہیں دل سے لگالوگی تو زندگی بوجھل اور پریشان ہوکر رہ جائے گی۔وہ شفقت سے اسے خود سے لگاتے ہوئے بولیں۔

"میں اپنی سی پوری کوشش کرتی ہوں کہ کسی کو مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔۔۔میں وقت پر سارے کام نمٹالوں۔۔۔مگر پھر بھی میرا احساس کوئی نہیں کرتا۔میں دل خراب کرنا نہیں چاہتی مگر۔۔۔"

"ہاں تم ایسا نہیں چاہتیں میں جانتی ہوں لیکن جب سامنے والے کا عمل تمہاری امیدوں اور مزاج کے برعکس ہوجاتا ہے تو تہمیں دکھ بھی ہوتا ہے اور غصہ بھی آتا ہے؟ہے نا۔۔۔"

"بالکل۔۔۔بہت غصہ آتا ہے۔"

"اس کے لیے تمہیں ایک چھوٹی سی مشق کرنی پڑے گی۔۔۔"

"کیسی مشق؟"وہ متجسس ہوئی۔

"غصے کو پی جانے کی مشق۔۔۔لوگوں کو معاف کردینے کی سعی۔اور  جانتی ہو غصہ ضبط کرنا ایک مشکل عمل ہے مگر ناممکن نہیں۔"

"کیا اس کی مشق کرنی پڑتی ہے؟"وہ حیران تھی۔

"ہہممم بالکل۔۔۔ کیونکہ یہ غصہ ہی تو ہے جس کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہیں،نفرتیں بڑھتی ہیں۔۔۔انتقامی جذبات بیدار ہوتے ہیں۔۔۔غیبتوں کی محفلیں گرم ہوتیں ہیں۔"

"ٹھیک کہا خالہ بی غصے کی حالت میں نہ چاہتے ہوئے بھی میں ہر بار غیبت کرہی دیتی ہوں۔"

"بیٹی غصہ ایمان کو فاسد کردیتا ہے۔ انسان روحانی طور پر تو کمزور ہوتا ہی ہے بلکہ جسمانی نظام بھی اسی غصے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔"

"خالہ میں خود اپنی عادتوں سے پریشان آگئی ہوں۔آپ کی باتیں میرے دل کو لگ رہی ہیں۔آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔مگر میں کمزور ہوں میرے لیے اتنا آسان نہیں یہ سب کرنا۔"وہ بے بسی سےگویا ہوئی۔

ایک کوشش کرکے تو دیکھو اگلی بار تمہیں جیسے ہی غصہ آئے اور ضبط کرنا مشکل لگے تو سوچو اس مشکل امتحان سے گزر جاؤں گی تو انعام میں اللہ کی محبت پاؤں گی بھر دیکھنا کیسا لطف آۓ گا۔۔۔مجھے یقین ہے کہ یہ بات ذہن میں آتے ہی تمہارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاۓ گا۔ضرورت ہے تھوڑی سی محنت اور توجہ کی۔اپنے اخلاق سنوارنے کی۔"

"خالہ بی میری منفی سوچوں نے واقعی مجھے پریشان کر رکھا تھا۔۔۔ہر وقت دل پر بوجھ سا دھرا رہتا تھا اب کوشش کروں گی کہ آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی۔"

"اپنی نند نرمین کا اس مشکل وقت میں ساتھ دو۔۔اسے پیار سے سمجھاؤ اور نرمی سے کاموں کی طرف راغب کرو۔۔۔کوئی لڑکی اپنا گھر جان بوجھ کے توڑنا نہیں چاہے گی اور بدلے میں اللہ کے سوا کسی سسے امید نہ رکھنا۔۔

"ہاں میں ان شاء اللہ۔۔۔اسے سمجھاؤں گی۔وہ بھلے کاموں سی جی چراتی ہے مگر میری عزت کرتی ہے۔"حبہ پرعزم لہجے میں بولی۔

"اور سب سے اہم بات آئندہ کبھی تیمور کو اپنی طرف سے شکایت کا موقع نہ دینا نہ ہی اس کا دل اپنی باتوں سے میلا کرنا۔۔۔کیونکہ میاں بیوی کی رشتہ جتنا مضبوط ہے اتنا ہی نازک بھی۔۔۔"

"میں ان سے معافی مانگ لوں گی خالہ بی اور مجھے یقین ہے کہ وہ کھلے دل سے مجھے معاف کردیں گے اور  آپ کا ڈھیر سارا شکریہ کہ آپ نے مجھ نالائق کو اتنے پیار سے سمجھاکر میرا دل کا بوجھ ہلکا کردیا۔حبہ یہ کہتے ہوۓ محبت سے ہادیہ خاتون کے گلے لگ گئی۔

★**★

ختم شد