آج وہ 22 سال کا نوجوان  ہے اس کی میڈ  نے سبحان کو اچھائی اور برائی کا فرق اپنے انداز میں سکھایا ، اس کے دوستوں نے اور ماحول نے اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب بنا کر دکھایا ،قاری صاحب نے مذہب کو قرآن پڑھانے اور نماز تک محدود رکھا۔ میں جو اس کومحبت سے صحیح راہ سجھا سکتی تھی۔ اپنی اہم ذمہ داری کو چھوڑ کر اپنے کیریئر سنوارنے کے چکر میں اپنی آخرت کا گھر برباد کر بیٹھی۔ آج وہ اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔!

 مہوش ریحان

 آج  پھر نادیہ کو شوق چڑھا تھا  اور وہ  پھر انٹر نیٹ سے نئے نئے طریقے نکال رہی تھی کہ گھر بیٹھے پیسے کیسے کمائے جا سکتے ہیں۔اس نے باری باری کئی طریقے آزمائے، کبھی ٹیوشن پڑھائی ،کبھی آن لائن کام کرنے کی کوشش کی ایک بار فروزن ایٹم بھی ٹرائی کیا مگر گھر کی مصروفیات، چار بچوں کی پرورش اور سسرال کی ذمے داریوں کے ساتھ یہ کام کافی مشکل ہو جاتے تھے پھر چوں کہ وہ یہ سب شوقیہ کرتی تھی لہذا گھر والے بھی اس سے الجھ پڑتے کہ جب اللہ کا دیا سب کچھ ہے تو اپنے آپ کو ہلکان کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کی ساس اس کو اکثر سمجھاتی تھیں کہ بیٹا! عورت کی پہلی ترجیح اس کا گھر اور بچے ہوتے ہیں پھر یہ آخرت کا سرمایہ ہیں، یہی تمہارا کاروبار ہے مگر نادیہ کو ان کی نصیحتیں اپنے شوق کے آگے دیوار لگتی تھیں۔

نادیہ کو جب بھی یہ شوق چڑھتا تو وہ باہر والوں سے تو بہت اچھی طرح پیش آتی مگر اپنے بچوں کے ساتھ کام کی زیادتی کی وجہ سے کچھ سختی کر جاتی تھی، گھر پر بھر پور توجہ نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا ماحول  بھی نا خوشگوار سا ہو جاتا تھا۔

 

نادیہ کو یہ شوق تب چڑھتا تھا جب وہ اپنی پرانی سہیلیوں سے ملاقات کر کے آتی تھی اور جب وہ دیکھتی کہ سب ہی کچھ نہ کچھ کر رہی ہیں تو اسے اپنا آپ بے کار محسوس ہوتا تھا، اسے لگتا کہ وہ اور اس کے وہ تمام کام جس کے لیے وہ دن رات کھپی رہتی ہے سب فضول ہیں، دنیا میں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ سوچ اس کے اندر چڑ چڑا پن پیدا کر دیتی تھی اور اس کا دل گھر اور بچوں کے کام سے سے بے زار ہو جاتا تھا، اسے سب گھر والے اور اپنے ہی بچے اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ لگنے لگتے تھے۔

 

آج کل اس نے آن لائن چیزوں کی خرید و فروخت شروع کر رکھی تھی، اس سلسلے میں اس کی ملاقات مسز حماد سے  ہوئی جو بہت کامیابی سے سے اپنا کپڑوں کا بزنس چلا رہی تھیں، مسز حماد  ایک چالیس پینتالیس سال کی با اعتماد خاتون تھیں، جو انسان سے مل کر ہی اس کی پسند ناپسند اور سوچ کا اندازہ کر لیتی تھیں، لوگ پہلی ملاقات کے بعد ہی ان کے اسیر ہو جاتے تھے اور ان سے مللنے اور تعلقات رکھنے کی خواہش رکھتے تھے، تھوڑے سے زرمبادلہ سے کپڑوں کا جو کاروبار  انہوں نے اپنے گھر سے شروع کیا  تھا وہ اب ہر قسم کے سلے ان سلے کپڑوں اور عبایا تک  پہنچ گیا تھا، جہاں عام کپڑے ،شادی بیاہ کے کپڑے اور دلہن کے کپڑے بھی وہ تیار کروا کے دے رہی تھیں ۔

 

نادیہ بھی مسنز حماد سے مل کر بہت متاثر ہوئی، کام کے سلسلے میں وہ اکثر ان کے گھر چلی جاتی تھی، مسز حماد کو بھی اس سے انسیت محسوس ہوتی تھی، آج بھی نادیہ اپنے بیٹے کے اسکول سے ہوتی ہوئی مسز حماد کے ہاں چلی گئی، باتوں باتوں میں گھر اور مصروفیات کا ذکر آگیا مسز حماد جو بہت خاموشی سے  نادیہ کی مصروفیات کا ذکر  سن رہی تھیں کہنے لگیں ،"یہ گھر، یہ بچے زندگی کی رونق ہیں اور ساتھ ساتھ ہمارے لیے امتحان بھی ہیں۔ دعا کرو بس یہ ہمارے لیے آزمائش نہ بن جائیں۔"

نادیہ نے محسوس کیا تھا کہ جب بھی وہ ان سے بزنس کے حوالے سے بات کرتیں تو ان سے زیادہ با عتماد اور بہترین مشورہ دینے والا نظر نہ آتا تھا مگر گھر کا ذکر سن کر وہ افسردہ ہو جاتی تھیں، نادیہ کو تجسس ہونے لگا کے آخر اس کی وجہ کیا ہے، نادیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرور مسز حماد سے اس بارے میں بات کرے گی، آج وہ  اسی ارادے سے مسز حماد سے ملنے گئی، باتوں باتوں میں اس نےپوچھا تو وہ افسردگی سے بولیں، "میں نے زندگی  میں کئی سودے کیے ہیں اور ہر جگہ کامیابی حاصل کی ہے  مگر ایک جگہ میں نے بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے،  مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے، میں نے انمول چھوڑ  کر بے مول چن لیا. " مسز حماد کی آ نکھوں سے آنسو بہ رہے تھے نادیہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی  تھی کہ اتنی کامیاب شخصیت بھی کوئی غلط فیصلہ کر سکتی ہے ۔

وہ بولیں،" مجھے شروع ہی سے شوق تھا کہ  میں کچھ کر کے دکھاؤں او اس تگ و دو کا آغاز میں  نے شادی کے بعد سے کیا ، میرے گھر والوں نے بھی میرا ساتھ دیا مگر میرا یہ شوق بڑھتے بڑھتے میرا جنون بن گیا، میرا کام ہی میری زندگی بن گیا، اس دوران میں نے اپنی فیملی کو بھی محدود رکھا، میرا بیٹا سبحان جو میرا انتظار کرتا رہتا مگر میں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اسے بھول گئی، میرا مقصد تھا کہ میں دنیا میں اپنا نام پیدا کروں میرا بیٹا اور میرے گھر والے میری توجہ چاہتے تھے مگر میرا ذہن،دماغ اور سوچیں کیریئر کے ساتھ جڑی رہتی تھیں، مجھے یہ تو پتا ہوتا تھا کہ میرے کسٹمرز کو کیا پسند ہے مگر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ میرا بیٹا مجھ سے کیا چاہتا ہے، میرے شوہر  مجھ سے کیا چاہتے ہیں، میں نے اپنے بیٹے کی ذمے داری کے لیے ایک میڈ رکھی تھی جو  بظاہر بہت اچھے انداز میں میرے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھی، میرا بیٹا بڑا ہوا تو اسکول بھی بہترین دیکھ کر اس میں ایڈمیشن کروا دیا، سب کچھ میں اپنے بیٹے سبحان کو اعلی دینا چاہتی تھی مگر افسوس میرے پاس اس کو دینے کے لئے  اعلیٰ وقت نہیں تھا، رفتہ رفتہ وہ بڑا ہو گیا  تو میں اور بھی آزاد ہو گئ، اب اس کی اور میری ملاقات یا تو صبح ناشتے پر ہوتی یا ویک اینڈ پر

،پھر انٹر نیشنل ایگزیبیشن میں بھی میری ڈیمانڈ ہوگئی تو اکثر مجھے ملک سے باہر بھی جانا پڑتا، مجھے اندازہ ہی نہ ہو سکا  کہ ان سب کے درمیان  میرا سب سے قیمتی سرمایہ ضائع ہو رہا ہے، کچھ عرصے کے بعد جب کرونا آیا تو اس دوڑ میں ایک دم سے کمی واقع ہوگئی ،کچھ فرصت کے لمحے میسر آئے،کچھ قریبی دوستوں کو اچانک رخت سفر باندھ کر آ خرت کے سفر پر جاتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ  میرے پاس تو آخرت کا کوئی سرمایہ ہی نہیں ہے، جس وقت مجھے اپنی آخرت کے لئے سرمایہ جمع کرنا چاہیے تھا ،اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنی چاہیے تھی ،وہ وقت تو گزر چکا ہے، میرا بیٹا سبحان مجھ سے زیادہ اپنی کرسچن میڈ  آسیہ سے  انسیت رکھتا تھا، میں نے تو کبھی اس سے اس کے دوستوں کے بارے میں جانا ہی نہیں ،بہترین اسکولوں کے حوالے کرنے کے بعد یہ سوچا ہی نہیں کہ یہ اسکول ہمارا ایمان، ہماری اقدار ہمارے نظریات،ہماری زبان، سب کچھ ہماری اولاد سے چھین سکتے ہیں، لہذا ان پر گہری نگاہ رکھتی یا کم از کم سبحان  سے اپنا تعلق مضبوط رکھتی اور اس کو اچھائی اور برائی کا فرق سمجھاتی ۔قاری صاحب بھی پڑھانے آتے تھے مگر وہ پڑھاتے اور چلے جاتے تھے بس۔۔۔

آج وہ 22 سال کا نوجوان  ہے اس کی میڈ  نے سبحان کو اچھائی اور برائی کا فرق اپنے انداز میں سکھایا ، اس کے دوستوں نے اور ماحول نے اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب بنا کر دکھایا ،قاری صاحب نے مذہب کو قرآن پڑھانے اور نماز تک محدود رکھا۔وہ اپنے دل میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب ان ہی لوگوں سے مانگتا رہا جو خود ان سوالوں کے جواب نہ جانتے  تھے اور میں جو اس کو سمجھا سکتی تھی سنبھال سکتی تھی ،محبت سے اس کو صحیح راہ سجھا سکتی تھی۔ اپنی اہم ذمہ داری کو چھوڑ کر اپنے کیریئر سنوارنے کے چکر میں اپنی آخرت کا گھر برباد کر بیٹھی۔ آج وہ اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے، اس کو اپنے والدین سے محبت ہے، نہ وطن سے، نہ زبان سے ،یہاں تک کہ  وہ اپنی پہچان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، آ ج یہ شہرت ،یہ دولت ،یہ نام میرے کس کام کا؟ سچ نادیہ میری تو ساری زندگی کا نقصان ہو گیا ہے ۔"

 

مسز حماد کی باتیں سن کر کر نادیہ کو اچانک اپنے ارد گرد پھیلے مہنگے سوٹ بے وقعت نظر آنے لگے، اس کی نظروں میں اپنے بچے گھومنے لگے جو اس کی محبت اور توجہ کے طلبگار  تھے،جو اس کی آخرت کا سرمایہ  تھے، جن کی بہترین پرورش کر کے ہی وہ منافع بخش سودا کر سکتی تھی، اس کو اپنے گھر پہنچنے کی جلدی تھی، وہ گھر جا کر اپنی غفلت کا ازالہ کرنا چاہتی تھی کیونکہ ابھی دیر نہیں ہوئی تھی۔