جلدی میں وہ رشتہ قبول کر لیا گیا لیکن قسمت کے کیا کہنے کہ لڑکے والوں نے جھوٹ بول کر صرف و صرف پیسوں کے لالچ میں شادی کی تھی کہ لڑکی ماسٹرز ہے تو کما کر لائے گی۔ لڑکے کی کوئی نوکری نہ تھی اور نشے کا بھی عادی تھا۔ غصے میں اور خرچ کے لیے پیسے نہ ملنے پر مار پیٹ الگ کرتا تھا۔ اسی مار پیٹ میں ایک دن نغمہ کا بچہ بھی ضائع ہوگیا اور ساتھ ہی اوپر کی آمدنی سے زیادہ پیسے نہ کما کر لانے پر اُسے گھر بدر کردیا۔

 مہوش کرن

رات کے دس بجے وہ اپنے بستر پر لیٹی سوچ رہی تھی۔ سالوں پہلے دنیا والوں کے کہے جملے آج بھی نغمہ کے کانوں میں گونج رہے تھے۔

 

”ارے اِس گھر کی لڑکیاں تو ہیں ہی منحوس “

”اے یہ تو اپنی ماں کو کھا گئیں“

”یہاں تو رشتہ ڈالنے سے کان پکڑے۔توبہ ہے بھئی توبہ.“

”ایک چھوڑ ،دو دو طلاق یافتہ، یہی تو غم لگا تھا ماں کو۔“

”بس کر دو بھئی اِن لوگوں سے تو ملنا جلنا ترک کردو ورنہ اپنی بچیوں کے رشتے نہیں آئیں گے۔“

”بے چاری ماں اسی دکھ میں تو چلی گئی۔“

 

”ارے کیا ہو گیا ہے سب لوگوں کو، خدا کا خوف کرو، تم لوگوں کے اپنے ہزار مسئلے ہیں لیکن سب ہاتھ دھو کر بس اسی گھر کے پیچھے پڑے ہو۔

اے میں کہتی ہوں کہ بِن ماں کی بچیوں کی جان کیوں عذاب کر رکھی ہے، خدا کا واسطہ ہے جاؤ یہاں سے، اپنا راستہ ناپو۔“

پھوپھی اماں نے سب کو خوب سنائیں مگر پھر بھی سب اپنے گریبان میں جھانکے بغیر ہی چلے گئے۔ وہ دن اور آج کا دن کوئی پلٹ کر پوچھنے نہیں آیا۔

٭٭٭

بس پانچ نفوس اس گھر کے باسی تھے، اباجی، پھوپھی اماں، عذرا، نغمہ اور زیب۔ لوگوں کو خوشیاں بانٹنے والے لیکن بدلے میں ڈھیروں دکھ پانے والے۔ مگر وہ اپنے رب کے فیصلوں پر راضی اور مطمئن تھے، کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہ تھا۔ پھوپھی اماں جوانی میں ہی بیوہ ہوچکی تھیں اور پھر لاکھ چاہنے کے باوجود کہیں شادی نہ ہو پائی تو بھائی اور بھابی نے کھلے دل سے ان کو اپنے ساتھ رکھا اور وہ بھی سب پر جان نچھاور کرتی تھیں۔

عذرا کی شادی اماں جی کی زندگی میں ہی ہوئی تھی مگر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آخرکار شادی کے دس سال بعد طلاق ہوگئی۔ بڑی نیک سیرت اور صابر لڑکی تھی اس نے تو یہ تک کہا کہ آپ بخوشی دوسری شادی کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن جو ہونا تھا وہی ہوا اور اس کی نیک نیتی شادی کو نہ بچا سکی۔

ابھی سب اسی دکھ میں تھے کہ نغمہ کے لیے اچھا رشتہ آگیا، موقع اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے

جلدی میں وہ رشتہ قبول کر لیا گیا لیکن قسمت کے کیا کہنے کہ لڑکے والوں نے جھوٹ بول کر صرف و صرف پیسوں کے لالچ میں شادی کی تھی کہ لڑکی ماسٹرز ہے تو کما کر لائے گی۔ لڑکے کی کوئی نوکری نہ تھی اور نشے کا بھی عادی تھا۔ غصے میں اور خرچ کے لیے پیسے نہ ملنے پر مار پیٹ الگ کرتا تھا۔ اسی مار پیٹ میں ایک دن نغمہ کا بچہ بھی ضائع ہوگیا اور ساتھ ہی اوپر کی آمدنی سے زیادہ پیسے نہ کما کر لانے پر اُسے گھر بدر کردیا گیا اور کچھ دنوں میں طلاق کے کاغذات ڈاک کے ذریعے بھجوا دیے گئے جبکہ اس کے سامان، زیور، فرنیچر سب پر پوری طرح قبضہ جمالیا گیا۔ یوں شادی کے چند مہینوں میں ہی نغمہ کا گھر بھی ٹوٹ گیا۔

اماں جی اس صدمے کے باعث دل کی مریضہ بن گئیں لیکن زبان پر ہر وقت ربِ کریم کی حمد و ثنا اور استغفار ہی رہتا۔ چھ ماہ بعد وہ  اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اس دن ان کی وفات پر ہی تو سب رشتہ دار یہ باتیں کرکے گئے تھے۔ کتنے سال بیت گئے اِن باتوں کو لیکن نغمہ کے ذہن میں ساری یادیں روشن تھیں۔

٭٭٭٭

عذرا نے اپنی زندگی کا زاویہ یکسر تبدیل کر لیا تھا۔ طلاق کے بعد دین کی مکمل تعلیم حاصل کر کے تجوید اور حدیث کی معلمہ و مدرسہ بن چکی تھی۔

نغمہ نے ابا جی کے کہنے پر دین کی تعلیم جو شادی کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی وہ مکمل کرلی تھی اور دین کے پیرائے میں ہی لکھنے لگی تھی اور ایک پُردرد مصنفہ بن کر اپنا اور سب کا دکھ درد لکھتی اور ان حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے رب کے مظلوم بندوں کو رب سے جوڑنے کا فریضہ انجام دیتی۔

زیب سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔ اماں جی کے جانے کے بعد پھوپھی اماں اور سب بہنوں کے لیے اس کی حیثیت ایک اولاد جیسی ہوگئی تھی اور ابا جی تو اسے بالخصوص توجہ دیتے کہ ان سب جھمیلوں میں وہ نظرانداز اور اثرانداز بھی ہوتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بے حد حساس طبیعت کی بھی حامل تھی لیکن اس گھر کی تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے کے دَر پر تھی اور گھر والے ڈھال بننے کی کوشش کر رہے تھے۔

زیب کی بارہ مہینے پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور وہ بھی عجیب قسم کے حالات کا شکار تھی۔ اُس کے سسرال والے اسے زیادہ پڑھے لکھے ہونے اور حجاب کرنے پر طنز کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس کی نماز کے انداز پر بھی نکتہ چینی کرتے، جب تک وہ نماز پڑھتی رہتی کوئی نہ کوئی اس کے سر پر کھڑا رہتا، یہاں تک کہ شوہر نے گھر سے نکالنے کی دھمکی بھی دے ڈالی کہ نماز کا طریقہ بدلو ورنہ باپ کے گھر واپس جاؤ۔ ساس بھی معاملے کو نمٹانے کی بجائے خوب بڑھا چڑھا رہی تھیں اور آئے دن کی بحث سے بچنے کے لیے وہ واقعی باپ کے گھر آگئی تھی اور کسی طور کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ بس خلع لے لوں گی کی رَٹ لگا رکھی تھی۔

پھوپھی اماں تو ہر وقت سر پکڑے بیٹھی رہتیں، عذرا اور نغمہ ہر وقت ابا جی کے ساتھ سر جوڑے بیٹھی رہتیں جبکہ زیب اپنے کمرے میں بند کچھ سننے کو روادار نہ تھی۔

٭٭٭

نغمہ بستر پر لیٹی یہی سوچے جارہی تھی کہ کس طرح معاملات کو فہم و فراست سے حل کیا جائے جس سے کسی کا نقصان نہ ہو اور کم از کم زیب کا تو گھر بچ جائے۔ یہی سوچتے اور دعا کرتے نیند آگئی۔ فجر کی اذان پر آنکھ کھلی تو دل میں مکمل ارادہ کر لیا کہ زیب سے کسی نہ کسی طرح بات کرنی ہی چاہیے۔

٭٭٭

نماز، قرآن، ذکر اذکار، سب کام ہوگئے لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ گھر میں سب روبوٹ ہیں۔ نہ بات چیت اور نہ ہنسی مذاق۔ چھٹی کا دن تھا تو ابا اور عذرا گھر پر ہی تھے۔ آخر کار نغمہ سے رہا نہ گیا،

”آخر گھر میں کب تک اس طرح کا ماحول رہے گا.؟

مسئلے کا حل یہ تو ہرگز نہیں، گفتگو سے کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری ہے تاکہ یہ گھٹن ختم ہو۔“

”جی جی تاکہ آپ کو لکھنے کے لیے ایک کہانی مل جائے.“

زیب خاموش رہنے کے ساتھ بہت تلخ بھی ہوگئی تھی۔

”میری پیاری بہن! میں کیوں ایسا کروں گی.؟ میں تو تمھاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔“ نغمہ نے سمجھایا۔

”مدد کرنی ہے تو میری جان چھڑائیں اس سارے معاملے سے.“ زیب نے بیچارگی سے کہا۔

”ہاں ہاں بالکل ہم سب کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں، اگر تم موقع دو تو۔“ اب عذرا بھی بولیں۔ لیکن پہلے تو یہ بتاؤ کہ جان چھڑانے سے کیا مراد ہے.؟“

”میں وہاں رہنا نہیں چاہتی، کیا میری اپنی کوئی مرضی نہیں، اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار مجھے خود نہیں؟؟؟

میں عاقل و بالغ ہوں، اپنا برا بھلا خود سمجھ سکتی ہوں، سب مل کر میرے پیچھے نہ پڑیں، نہ پھوپھی اماں سے جذباتی ورغلا کر کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔“

 زیب بولتی چلی گئی۔

”نہ بٹیا! کوئی مجھے نہیں کہتا کہ تم کو جذباتی طور پر ورغلاؤں۔ یہ تو بس میری تم سب سے محبت ہے بلکہ تمھاری ماں کے اتنے احسانات ہیں مجھ پر کہ میں چین سے نہیں بیٹھ پارہی.“ پھوپھی اماں سبزی بناتے بناتے آنسو ضبط کرکے بولیں۔

”یعنی اگر آپ پر اماں اور ابا جی کے احسانات نہ ہوتے تو آپ کو میری فکر نہ ہوتی یا یوں کہوں کہ احسانات ہیں تو آپ مجھے پھنسا کر اپنے اوپر کیے ہوئے احسانات کا بدلہ دیں گی؟؟ بلکہ یہ تو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ مجھ سے کوئی بدلہ لیں گی۔“ زیب تو جیسے بمباری کرنے لگی۔

”بس کر دو زیب، میرے خیال سے میں نے تمھاری تربیت اس طرح نہیں کی۔ یہ تو تمھاری پھوپھی ہی یہ سب سن کر اپنا منہ سیےکام کررہی ہیں لیکن اگر تمھاری اماں حیات ہوتیں تو خوب خبر لیتی، اس زبان درازی اور بے باکی پر۔“ اب تو ابا جی بھی گفتگو میں شامل ہوگئے تھے۔

”پریشان ہونے یا مشکل میں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس طرح بڑوں سے بدتمیزی کرو۔ تم جس مشکل میں آج ہو اُس میں ہم سب گھر والوں کا کچھ عمل دخل نہیں، لیکن تمھارے پاس جو کچھ آج ہے اُس میں اسی گھر والوں کا، تمھارے اپنوں کا کردار ہے.“ نغمہ نے اُسے خوب سُنا دی۔

"یااللّہ ! بس کرو تم سب کے سب چپ کر جاؤ. دماغ پہلے ہی ماؤف ہے، اوپر سے سب کی زبان قینچی کی طرح چل رہی ہے۔ خود بناؤ سبزی اور جو کچھ پکانا ہے، میں کمرے میں جارہی ہوں۔“ پھوپھی اماں تو یہ کہہ کر چلی گئیں اور وہ تینوں ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔

٭٭٭

لمبی خاموشی کے بعد ابا جی گویا ہوئے،

”پیاری بیٹیو! ایسا ہوتا ہے، گھر سے باہر لیکچر دینا یا سوچ کر دانشمندانہ تحریریں لکھنا پھر بھی آسان ہے لیکن جب سر پر مصیبت پڑتی ہے تو اُس سے نبردآزما ہونا، سوجھ بوجھ سے حقائق کو پرکھتے ہوئے درست فیصلے پر پہنچنا نہایت مشکل کام ہے اور دراصل امتحان ہی یہی ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ لوگ بہت سہل زندگی گزار چکی ہیں تو زیب کی پریشانی سمجھ نہیں رہیں بلکہ آپ نے چونکہ اپنی پریشانیوں کا انجام ایسا دیکھا ہے تو آپ بہت زیادہ محتاط اور گھبرائی ہوئی ہیں۔ اب ذرا تحمل سے معاملہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“

”زیب آپ کہہ رہی ہیں کہ وہاں رہنا نہیں چاہتی۔ اک دم وہاں سے اٹھ کر آگئی ہیں، ابھی تو شادی کو صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ چیزوں کو سمجھنے میں بدلنے میں، اعتبار کرنے میں وقت لگتا ہے، انہیں کچھ تو وقت دو۔“ ابا جی نرمی سے سمجھا رہے تھے۔

”بات وقت دینے کی نہیں اَبَّا. وقت تو ان کو دیا جاتا ہے جو وقت مانگیں۔ وہ لوگ تو ہر چیز کا فوری حکم سناتے ہیں۔ میری ساس کہتی ہیں کہ ہمارے عقائد اور رسم و رواج کو برا مت کہو، قرآن و سنت کے دلائل اپنے پاس رکھو۔ ہم بھی پکے مسلمان ہیں، یہ تو عقیدت کی باتیں ہیں، دنیا والے کچھ بھی کہیں بس ہماری باتیں درست ہیں۔“

”ٹھیک یعنی وہ اگر خود الگ یا غلط کام کر رہے ہیں تو انہیں کرنے دیں، آپ مت کریں۔ غلط رسموں میں ان کا ساتھ ہرگز مت دیں۔ غلط تو غلط ہی ہے تو آپ اسے وہی سمجھیں اور کہیں بھی لیکن حکمت عملی سے۔

 

جیسے کہ آپ کی اماں شادی کے بعد ہمیشہ منت کے چھوارے چپ چاپ پھینک دیتی تھیں، منت کا پکا کر خاموشی سے الگ ہوجاتیں، تین تین دن فاقہ کرتیں، روزے رکھ لیتی یا کوئی ایسا نہایت ضروری بڑا کام پھیلا لیتی کہ آپ کی دادی ان کو پکانے کا کہنے کی بجائے خود پکا لیتیں۔ میری اماں کے بار بار اصرار پر گود بھرائی کی فرسودہ رسم کو منع کر کے تھکنے کے بعد چپ اختیار کر لی اور خاموشی سے لال جوڑا سینا شروع کردیا۔ سب کے ساتھ میں بھی یہی سمجھا کہ وہ مان گئی ہیں لیکن پھر انہوں نے مجھے سمجھایا کہ آپ کی اتنی تنخواہ تو ہے نہیں، اس تقریب میں بہت خرچ ہوجائے گا، بلاوجہ قرض لینا پڑے گا۔ جبکہ ویسے ہی ہسپتال اور بچے کی تیاری کا خرچہ سامنے کھڑا ہے اس لیے آپ اپنی طرف سے منع کردیں اور میں نے واقعی یہی کیا۔ راتوں کو اٹھ کر تہجد میں ہم سب کا نام لے لے کر روتی، دعائیں کرتی تو میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا کہ ایسا کیا ہے جو ہم غلط کر رہے ہیں اور یہ اتنی پریشان رہتی ہیں۔ اسی سوچ نے مجھے جاننے پر اکسایا اور بہت سالوں بعد یہ باتیں مجھ پر اس طرح واضح ہوئیں تو میں دل سے قائل ہوا ان کی دانشمندی کا۔

بیٹی میں آج جیسا ہوں ہمیشہ سے تو ایسا نہیں تھا نا۔ آپ کی امی نے بہت محنت کی مجھ پر اور آپ کی دادی پر۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کے گناہ معاف فرمائے.“ اتنا بول کر ابا جی چپ سے ہوگئے۔

”اور اب تو تم دونوں کچھ مہینوں میں ماشاء اللّٰہ سے صاحبِ اولاد ہو جاؤ گے. اولاد کی برکت سے یقیناً معاملات میں بہتری آئے گی۔“ اپنا دکھ سوچ کر نغمہ کا دل بھر آیا۔

 لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی،

”پتا ہے زیب! اماں جی اکثر کہتی تھیں کہ میرے اور آپی کی شادی کے معاملے میں ابا جی نے استخارہ نہیں کیا تھا اور بس دنیاوی معاملات کو پرکھ کر رشتہ طے کر دیا تھا. جبکہ اماں جی انفرادی طور پر استخارہ کرتی رہی تھیں اور ان کا دل مطمئن نہیں تھا لیکن ابا جی کی مرضی کے آگے ان کی نہ چلی تھی اور ان کو لگتا تھا کہ اسی لیے دونوں جگہ مسئلہ ہوا۔“

”بالکل ٹھیک، اور اسی لیے تمھاری شادی میں، میں نے خاص طور پر استخارہ کیا اور معلوم نہیں کیوں لیکن تمھارے شوہر کی طرف سے میرا دل مطمئن رہتا ہے۔ ابھی بھی جو کچھ تم بتاتی ہو وہ سچ سہی لیکن کیا تمھیں نہیں لگتا کہ اسلم میاں کے اندر تھوڑی سی بھی خیر ہے؟ کیا انہوں نے کبھی تمھیں براہِ راست یا گھما پھرا کر ہی کچھ کہا ہے.؟ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اسلم اپنی ماں سے الگ مزاج کا لڑکا ہے، شادی کے وقت چھان بین کرتے ہوئے جب میں نے اس سے سب کچھ پوچھا تھا تو اس کے اندر دین کے معاملات کے بارے میں جاننے کی طلب محسوس ہوئی تھی بالکل اسی طرح جیسے میرے اندر تمھاری اماں نے جگائی تھی۔“ ابا جی بڑی امید سے پوچھ رہے تھے۔

”جی کہا تو ہے لیکن اس طرح نہیں، بس دبے لفظوں میں یا کبھی صرف اپنی امی کے سامنے ہی کہا اکیلے میں نہیں۔ ایک دفعہ کہا تھا کہ میں آئندہ یہ سب نہ دیکھوں۔۔۔اوہ۔۔۔“ زیب کہتے کہتے خود ہی چونک گئی۔

”ہو سکتا ہے وہ کوئی خاموش پیغام دینا چاہ رہے ہوں اور اپنی امی کے لحاظ میں چپ رہ جاتے ہوں.“ زیب نے جوش میں کہا لیکن فوراً ہی بے زاری سے بولی،

”تو اکیلے میں تو مجھے بتا سکتے ہیں نا۔“

”دیکھو بیٹی! انسان جس عقیدے پر پَلا بڑھا ہو اُس سے اچانک منہ موڑ لینا آسان نہیں ہوتا کیونکہ عقیدہ ایک تناور درخت کی مانند ہوتا ہے۔ خاص کر جب گھر والے اور بزرگ اُنہی پرانی چیزوں کو صحیح سمجھتے ہوں۔ آہستہ آہستہ عزت و احترام کے ساتھ یہ کام کیا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی صورت میں ماں باپ سے بدسلوکی جائز نہیں۔

ہوسکتا ہے تمھارا ساتھ ملے تو وہ سوچ سمجھ کر خود کو بدلے اور اللّٰہ نے چاہا تو تمھاری ساس بھی درست بات کو مان لیں۔ نہیں تو کم از کم تم دونوں ہی مل کر اپنی نسل کو درست عقیدے پر پروان چڑھا سکو گے۔ اب دیکھو اگر تم اسلم سے خلع لے لیتی ہو تو اس کی امی کہیں اور شادی کردیں گے اور اب تو خاص طور پر اپنی ہم خیال لڑکی کو لائیں گی یوں اسلم کی زندگی کے راہِ راست پر آنے کا موقع ضائع ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے کوئی دوسری سوچ رکھنے والی لڑکی اس گھر کا ماحول مزید خراب کر دے۔ آپ تو اپنے راسخ العقیدہ ہونے کی بنیاد پر ایک گھر کو تباہی سے بچا سکتی ہو کیونکہ درست عقیدہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، ہے نا میری بیٹی۔“

پتا نہیں ابا جی پوچھ رہے تھے یا بتا رہے تھے لیکن زیب سسک سسک کر رو رہی تھی اور بول رہی تھی،

”مجھے ڈر لگتا ہے ابا جی! آپی اور باجی کی طرح میرے ساتھ بھی وہی سب ہو جائے گا تو اسی لیے میں خود ہی سب کچھ چھوڑ دینا چاہتی ہوں. تاکہ اس گھر پر ایک بار پھر طلاق یافتہ کا لیبل نہ لگے بلکہ میں کہہ سکوں کہ میں نے خود اپنی مرضی سے خلع لی ہے۔“

”ارے ارے نہ میری پیاری بہنا! ایسے نہیں سوچو۔ اللّٰہ نہ کرے کہ تم سمجھداری سے معاملہ لے کر چلو اور پھر بھی تمھارے ساتھ برا ہو لیکن اگر ہو بھی جائے تو اس میں یقیناً اللّٰہ کی طرف سے خیر اور مصلحت ہی ہوگی۔ میری چھوٹی، توکل اور تقوی کا راستہ اپناؤ، دل میں اللّٰہ کا خوف اور محبت زندہ رکھو اور ایک دن کے لیے نہیں ہمیشہ کے لیے۔ کیونکہ یہ شجر ایک بار میں پھل نہیں دیتا بلکہ سالوں لگ جاتے ہیں اس کی آبیاری کرتے کرتے۔ اللّٰہ تمھارے حق میں معاملہ آسان کریں۔“ عذرا نے زیب کو گلے لگا کر تسلی دی۔

اُسی لمحے ابا جی کا موبائل بجنے لگا۔ حیرت سے فون اٹھا کر وہ وہاں سے چلے گئے کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے آئے اور خوشی سے بولے،

”میں نہ کہتا تھا کہ اسلم میاں کے اندر خیر ہے۔ انہی کا فون تھا کہ آج مجھے اپنے ابو بہت یاد آرہے ہیں۔ چھٹی کا دن ہے کیا میں آپ کے ساتھ گزار لوں اور اگر اجازت ہو تو واپسی میں اپنی بیگم کو گھر لیتا جاؤں۔؟ میں نے کہا ضرور برخوردار فوراً تشریف لے آئیے۔“

   سب بے اختیار شکرِ ربی بجا لائے۔ عذرا کے گلے لگی زیب پُرسکون ہوکر وہیں دراز ہوگئی جبکہ نغمہ پھوپھی اماں کو بتانے دوڑی۔ اور ابا جی، ابا جی بہت بڑے بوجھ سے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو چھپائے ایپرن پہن کر، سب کی پسندیدہ، اسپیشل بریانی پکانے کی تیاری کرنے لگے۔