انھیں پیٹھ پیچھے اسی طرح کی باتیں کرنے کی عادت تھی۔ منہ پر میٹھی گڑ کی ڈلی جیسی اور پیچھے سے زبان میں کانٹے اگ آتے تھے۔ گھر بھر کو میرے خلاف بھڑکا دیتیں۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی چرب زبانی سے دوسروں کو شیشے میں اتار لیتی تھیں، مسئلہ تو یہ تھا سب لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کے شیشے میں اترتے کیوں تھے؟ اپنی عقل استعمال کیوں نہیں کرتے تھے؟ عجیب گورکھ دھندا تھا اس گھر کا

از۔۔۔۔زہرہ جبیں کراچی
پہلا حصہ

شادی کو تیسرا چوتھا دن تھا شاید جب میں نے کپڑے استری کرنے کے لیے نکالے تو مجھے استری اپنے سامان میں کہیں نظر نہیں آئی۔ ہاں استری کا خالی ڈبا ایک کونے میں رکھی چھوٹی میز پر دھرا تھا۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر استری ندارد ۔ کمرے سے باہر نکل کے نند سے پوچھا تو اس نے بتایا...”ارے ہاں بھابھی! آپ کی استری تو نچلے پورشن میں بڑی بھابھی کے گھر ہے۔ وہ دراصل بارات والے دن ہماری استری خراب ہو گئی تھی نا... اب بنوانے کا وقت تو تھا نہیں تو سب نے یہ مشورہ کیا کہ نئی دلہن کے جہیز سے استری نکال لیتے ہیں استعمال کر کے واپس رکھ دیں گے۔ لیکن واپس رکھنے کی نوبت ہی نہیں آئی، اس دن سے ہی استری مستقل استعمال ہو رہی ہے کیونکہ اپنی والی تو ابھی مکینک کے پاس بھیجی ہی نہیں کسی نے ۔ شادی کی وجہ سے سب مصروف تھے نا...!!“ وہ ساتھ ساتھ ہنستی بھی جا رہی تھی اور مجھے تفصیلات سے آگاہ بھی کررہی تھی۔

”چلو کوئی بات نہیں! اب ایسا کرو مجھے استری لا دو تو میں اپنے کپڑے استری کر لوں ۔ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔

”جی بھابھی! میں لے کر آتی ہوں“ وہ کہتے ہوئے جھپاک سے سیڑھیاں اتر گئی۔ تھوڑی دیر بعد آئی تو استری ہاتھ میں تھی۔ میں اپنا سوٹ استری کرنے لگی وہ مجھ سے باتیں کرنے لگی.... ”اور پتا ہے بھابھی ہم نے جب استری نکالنے کے لیے آپ کا سامان کھولا تھا نا تو اس میں آپ کے پراندے رکھے تھے، اتنے خوب صورت اتنے پیارے... ہائے میرا تو دل ہی آ گیا... میں نے اور بھابھی نے دو نکال لیے۔ بارات میں ہم دونوں نے وہی تو ڈال رکھے تھے چٹیا میں ۔ میرے تو لہنگے کی شان ہی بڑھ گئی تھی آپ کے پراندے سے. ویسے بڑے خوب صورت ہیں ماشاء اللہ!! مجھے دوبارہ بھی دیں گی نا آپ!!

مجھے اس کی معصومیت پہ ہنسی آ گئی..”ہاں ہاں تمہارا جو جی چاہے مجھ سے لے لیا کرو ۔“ اگرچہ شروع میں بری لگی تھی یہ بات کہ میرے نئے پراندے میری اجازت کے بغیر استعمال کر لیے۔ لیکن اس کے چہرے کی معصوم سی خوشی اور چمک دیکھ کر دل سے کدورت فوراً ہی دور ہو گئی۔

خیر... میں نے کپڑے استری کیے اور استری ایک طرف سنبھال کر رکھ دی۔ ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ چھوٹی والی نند آ گئی.. بھابھی! آپ نے کپڑے استری کر لیے تو استری دے دیں نیچے بڑی بھابھی منگا رہی ہیں۔“ بادل نخواستہ میں نے پھر مسکراتے ہوئے استری اسے تھما دی۔ کافی دیر گزر گئی مگر استری واپس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

پھر دو تین دن بعد دوبارہ استری کی ضرورت پیش آئی تو میں نے نند سے رابطہ کیا...”بھئی کپڑے استری کرنے ہیں مجھے استری لا دو ۔ وہ پھر نیچے جا کر استری لے آئی۔ میں نے اپنا کام ختم کیا اور ایک طرف رکھ دی۔ مجھے نہیں پتا چلا کہ دوبارہ کب کون استری اٹھا کر لے گیا اور اب تو یہ معمول ہی بن گیا تھا کہ مجھے جب کپڑے استری کرنے ہوتے تو اپنی ہی استری مجھے نچلے پورشن سے منگانی پڑتی یا خود جا کر لے کر آتی۔ بعض اوقات بہت ناگوار گزرتا.... ارے بھئی آپ کی ایک چیز خراب ہو گئی ہے تو اس کی مرمت کروا لیں یوں دوسروں کو پریشان کیوں کررہے ہیں۔ جیٹھانی سے باتوں باتوں میں تذکرہ بھی کیا کہ”آپ کی استری ابھی ٹھیک نہیں ہوئی؟“

” ارے کہاں !!! وقت ہی نہیں ملتا، اس قدر مصروفیت رہتی ہے اور اوپر سے تمہارے جیٹھ ایسے بھلکڑ ہیں کتنی دفعہ کہوں... پھر بھی یاد ہی نہیں رکھتے ۔ خالی ہاتھ جھلاتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور استری یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ویسے سچی بات کہوں تو تمہاری آٹومیٹک استری کا مزہ ہی کچھ اور ہے ایسے آرام سے کپڑے استری ہو جاتے ہیں کہ بس مزہ ہی آجاتا ہے۔ میری استری تو بس ایسی ہی ہے لوکل سی ۔ بار بار تو کپڑے چپکتے ہیں اس پر... میرا تو خود بھی دل نہیں کرتا اسے ٹھیک کروانے کو ۔ نری مصیبت ہی ہے۔ ہمیں تو تمہاری استری سے بڑا آرام ہو گیا ماشاءاللہ!!“ ” اوہ اچھا...! چلیں یہ تو اچھا ہے آپ کو سہولت ہو گئی۔ بس یہ ہے بھابھی جان! کہ کپڑے استری کر کے آپ استری فوراً اوپر بھجوا دیا کیجیے ورنہ مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے ۔“

”ارے ہاں ہاں...! لو بھلا اس میں کیا پریشانی! بچے تو پھر رہے ہوتے ہیں.. تم گڈو کو آواز دے دیا کرو فوراً لے آئے گا۔“ وہ ساس کے پاندان میں سے کتھا چونا زبان پر چاٹتے ہوئے بولیں۔

ائے ہاں زہرہ جبیں! تمہارے جہیز کے سامان میں پاندان نہیں تھا کیا... ؟ کہیں نظر نہیں آیا۔“ انھوں نے استفسار کیا ۔ ”جی بھابھی! میں نے اپنی امی کو منع کیا تھا پان دان نہ خریدیں میرے جہیز کے لیے۔ مجھے پسند نہیں۔ “

”اے لو بھلا کیوں منع کیا؟ ساس کے لیے ایک وہی تو تحفہ ہوتا ہے سمدھیانے والوں کی طرف سے. باقی تو جہیز کا سب سامان اپنی بیٹی کو دیتے ہیں بھئی وہی استعمال کرتی ہے۔“

ہاں جی وہ تو میں اچھی طرح دیکھ ہی رہی تھی کہ بیٹی خود کتنا استعمال کرتی ہے اور دوسرے کتنا... “ میں بادل نخواستہ پھر لحاظ مروت میں چپ ہو گئی۔ حالانکہ دل سے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ ٹھیک ہے آپ کو ایک چیز استعمال کرنی ہے تو ضرور کریں لیکن دوسروں کی چیزیں استعمال کرنے کے کچھ اصول ضابطے ہوتے ہیں۔ پرائی چیز کو اپنی سمجھ لینا، اپنے ہی گھر میں سنبھال کر رکھ لینا تو اچھی بات نہیں ہے۔ جب ضرورت ہو تب منگوا لیں اور ضرورت پوری ہوتے ہی چیز واپس بھجوا دیں۔ اور اگر کپڑے وغیرہ استری کرنے کا معاملہ ہے تو ایک ہی دفعہ میں زیادہ کپڑے استری کر کے رکھ لیے جائیں تاکہ بار بار نہ کسی کو تنگ کرنا پڑے ۔

یہ باتیں میں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں کئی بار شمسہ بھابھی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر انھیں سمجھ نہیں آتی تھی یا وہ سب لوگ سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔ اس معاملے میں پورا گھر ایک طرف ہو جاتا اور میں مسکین ایک طرف...! سب سے بڑھ کر فسادی تو ہمارے میاں صاحب تھے انھیں کچھ فرق ہی نہیں پڑتا تھا ان چیزوں سے. میں نے کئی دفعہ سمجھانے کی کوشش کی بخدا مجھے استری کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بس استعمال کر کے واپس لا کر رکھ دیا کریں۔ مجھے اپنے کام کے وقت خوار ہونا پڑتا ہے چکر کاٹنے پڑتے ہیں تکلیف ہوتی ہے بس یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں بس اس تکلیف سے نجات چاہتی ہوں۔

کتنی بار تو ایسا ہوتا کہ مجھے صبح صبح میاں صاحب کے کپڑے استری کرنے ہوتے اور استری غائب ہوتی۔ پھر میں نچلے پورشن میں جاتی ان کا دروازہ بجاتی رہتی وہ نیند سے جاگتیں اور ادھر ادھر ڈولتی ہوئی استری ڈھونڈ کر دیتیں ۔ مجھے اس وقت شدید غصہ آتا لیکن اس پر بھی میاں کے کان پر جوں نہ رینگتی۔ جیٹھ جیٹھانی ان کے چار بچے ساس نندیں دیور... سب کے کپڑے اسی بے چاری قسمت کی ماری استری سے استری ہوتے۔ اور اس کی مالکن کو اف تک کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ چلو ساس نندیں دیور... ہم سب تو ساتھ تھے ایک ہی گھر کے افراد تھے لیکن جیٹھانی کا پورشن اور گھر گرہستی تو بالکل الگ تھی۔ اپنی چیزوں پر ان کے ایسے مالکانہ حقوق مجھ سے برداشت نہیں ہوتے تھے۔

کبھی کبھی میں سوچتی لوگ اتنے بے حس کیسے ہو جاتے ہیں۔ چلو لوگوں کو تو چھوڑیے.. یہ اپنے شوہر نامدار بھی جو ویسے تو بڑی محبت کا دم بھرتے ہیں مگر کبھی بھی اپنی بیوی کے حقوق کا استحصال ہوتے دیکھ کر ایک لفظ نہیں بول سکتے۔

پھر یہ صرف ایک استری ہی کا معاملہ نہیں تھا... ذرا غور کیا تو ہر چیز ہی مال مشترکہ بن چکی تھی۔ فرائنگ پین چاہیے تو وہ دلہن کے جہیز کا، کپ، گلاس، پلیٹیں، چمچ اور ایسی بہت سی چیزیں اکثر نیچے ہی پائی جاتیں... ایک دن جوسر مشین لے گئیں... یہ کہتے ہوئے کہ : ”وہ تمہارے جیٹھ سیب اور کیلے لے کر آئے تھے جوس بنانے کے لیے۔ تمہارے جہیز میں تھی نا جوسر مشین.. ائے ذرا نکال دو ۔ بلکہ تم رہنے دو کہاں تکلیف کرو گی. یہ دونوں نندیں مل کر نکال دیں گی۔ جاؤ بھئی چلو پیٹی پر سے سامان ہٹاؤ اور ذرا جوسر مشین نکال دو ۔“

میں صرف مسکرا کر رہ گئی.. ہاں ہاں کیوں نہیں! اور بڑی شرافت سے جوسر مشین نکال کر ان کے حوالے کر دی۔ لو بھئی خوب مزے سے ملک شیک بنا بنا کر پیتے رہے اتنا بھی نہ ہوا ایک گلاس دیورانی کے لیے ہی بھجوا دیں۔ چلیں کوئی بات نہیں جوس نہ بھجوایا، جوسر مشین تو واپس بھجوا دیں ۔ لیکن نہیں بھئی وہ ہماری جیٹھانی ہی کیا جو ہر چیز کو سنبھال کر اپنے گھر میں نہ رکھ لیں۔ ایک دن کسی کام سے نیچے جانا ہوا تو دیکھا جوسر مشین کا جگ اتنی بے دردی سے برتنوں کے ڈھیر میں اوندھا پڑا ہے ۔ دل پر چوٹ سی لگی ۔ بھلا یہ کیا طریقہ ہے؟ میں نے اسی وقت ان سے کہا... ”بھابھی جان! یہ جگ اس طرح گندے برتنوں میں پڑا ہے ٹوٹ جائے گا بے احتیاطی سے ۔ اسے استعمال کر کے اسی وقت دھو کر رکھ دیا کریں۔“ کہا تو ہلکے پھلکے انداز میں ہی تھا کہ کسی کو برا نہ لگے لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ان کی آواز کانوں میں پڑ ہی گئی...

” توبہ ہے اسے بھی کوئی بیماری ہے ہر وقت ہی سیان پتی (سیانا پن) دکھاتی رہتی ہے۔ دھو کر رکھ دیں گے بھئی ایسی کون سی آگ لگی ہے۔“

انھیں پیٹھ پیچھے اسی طرح کی باتیں کرنے کی عادت تھی۔ منہ پر میٹھی گڑ کی ڈلی جیسی اور پیچھے سے زبان میں کانٹے اگ آتے تھے۔ گھر بھر کو میرے خلاف بھڑکا دیتیں۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی چرب زبانی سے دوسروں کو شیشے میں اتار لیتی تھیں، مسئلہ تو یہ تھا سب لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کے شیشے میں اترتے کیوں تھے؟ اپنی عقل استعمال کیوں نہیں کرتے تھے؟ عجیب گورکھ دھندا تھا اس گھر کا ۔

مجھے یہاں کی سیاست سمجھ نہیں آتی تھی۔ شروع شروع میں دل کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ ایک شخص محفل میں بیٹھا دوسرے شخص پر صدقے واری ہو رہا ہے اس کی تعریفوں میں رطب اللسان ہے اور اس کے محفل سے اٹھتے ہی اس کی برائیاں شروع کر دے اسے معتوب ٹھہرا دے۔ یہ کیسا رویہ ہے؟ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا؟ ایسے رویوں پر غور کیوں نہیں کرتے؟ ارے بھئی ابھی وہ آپ کے سامنے بیٹھی تھی تو آپ کی زبان سے پھول جھڑ رہے تھے اور جیسے ہی وہ اٹھ کر گئی، آپ نے اس کے بخیے ادھیڑنے شروع کر دیے..! اتنا تضاد کیوں آخر؟ اس سے ایسی ہی دشمنی ہے تو اپنے کام سے کام رکھیں نہ اس کی جا اور بے جا تعریف کریں نہ تنقید. بس بات ختم!! لیکن یہاں اکثر ایسا ہی ہوتا جو سامنے بیٹھا ہوتا اس کے اٹھتے ہی اس کی برائیاں شروع کر دی جاتیں۔ میں سوچتی انسان کو دین کی تعلیمات کا اتا پتا نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا شعور تو ہوتا ہی ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔

بس زہرہ جبیں پریشان ہو کر رہ جاتی اس ماحول میں کیسے گزارا ممکن ہو سکتا ہے! ماں کی نصیحتیں یاد آتیں... ان کا سارا زور گھر گرہستی کے کام سکھانے پر ہوتا تھا کل کلاں کو سسرال میں پریشانی نہ اٹھانی پڑے لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ ایسے منجھے ہوئے سیاست دان قسم کے سسرالی ملیں تو کیسے گزارا کرنا ہے۔ پر ہماری اماں بے چاری خود سیدھی سادی خاتون تھیں انھوں نے کب ایسے لوگ دیکھے تھے جو ان سے نمٹنے کا ہنر جانتیں۔ کام کاج میں مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، کوئی کرے نہ کرے مجھے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ ہاتھ پاؤں سلامت رکھے، میں خود بہت تھی کام کرنے کے لیے۔ مجھے تو ساری پریشانی ان رویوں سے تھی۔ آخر میں کیا کروں؟ کیا ان لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دوں؟

لیکن ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ساس نندیں دیور اور جیٹھانی کا پورا گھر گویا یہ سب ایک ہی گھر شمار ہوتا تھا۔ باقی دونوں بڑی جیٹھانیوں کا اتنا عمل دخل نہیں تھا گھر میں۔ لیکن شمسہ بھابھی سے تعلقات رکھنے بہت ضروری تھے۔ ورنہ ہمارے شوہر نامدار کو شدید برا لگ جاتا تھا۔ ساس بھی یہی چاہتی تھیں کہ جیٹھانی سے مل جل کر رہوں ۔ لیکن مل جل کر رہنے کے بھی کچھ اصول قاعدے ہوتے ہیں یا نہیں... ؟ یہ کیا کہ ایک ہی شخص پستا جائے...! مجھے بڑا شوق تھا شادی سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کا۔ لیکن اب اچھے خاصے کس بل ڈھیلے ہو گئے تھے اور ابھی مزید ڈھیلے بلکہ سارے پرزے ہی الگ الگ ہونے باقی تھے....!! (جاری ہے)