عاشق کوشش تو  نہ چھوڑے کہیں نہ کہیں اس چوٹ کو رسنے دے، اس کا مرہم کسی بھی شے کو نہ بننے دے جو اللہ کی محبت کی ضرب ہے ،اسے زخم بننے دے

 ندا اختر

رات جب سیاہی کا جامہ پہن کر چاند کا جھومر ماتھے پر سجاتی ہے  ۔۔۔ تو آپ کی یاد آتی ہے ۔۔

ستاروں سے روشن دوپٹا اوڑھ کر کسی کی حسین یادوں میں کھو جاتی ہے تو آپ کی یاد آتی ہے ۔

ہوا جھوم کر زلفوں سے ٹکراتی ہے تو آپ کی یاد آتی ہے ۔

 

فجر کی سرخی میں سفیدی آتی  تو آپ کی یاد آتی ہے ۔ 

 

 مگر دلِ مجروح  کی اب اور ہے کہانی 

یہاں اندیھری رات ہے اور ہے ویرانی ۔ ۔

 

آنکھیں کسی دنیا کے دھوکے کی نذر ہیں ۔ کان ہیں کہ سننے سے قاصر ہیں ۔

ضروری تھے جو زندگی کے لیے وہ اب کسی خشک گلدان کے پھولوں کی نذر ہیں  

انسان کی زندگی میں کسی اتار  چڑھاۏ کا آنا سردی گرمی کے موسم کی طرح ہے ۔ جذبات میں حدت کبھی خیالات کی شدت ۔

کبھی سرد لہجے کبھی ٹھنڈی آہیں ۔ مگر  ان کیفیات کا آنا اور مسلسل بہار ہی بہار یہ زندگی کا مقصد نہیں ہے ۔۔۔

اور دیکھا جائے تو مومن کا کوئی موسم نہیں ہوتا ہاں مومن ہر موسم میں مومن رہتا ہے ۔

جب نومولود آنکھیں موندے کسی گہری نیند میں خوابیدہ احساسات میں کھویا ہوتا ہے تو ایک صدا اسے بیدار کرتی ہے اللہ اکبر اللہ اکبر  اور اس کا پورا وجود اس آواز کی شناخت میں کان بن کر سن رہا ہوتا ہے ۔ وہی صدا الست ٭٭٭

  

جوانی اپنے جوبن پر زندگی کے رنگ بھرتی ہے ۔۔ اور کسی ہمنوا سے وہ خواب و خیال حقیقت بن جاتے ہیں ۔

 

پھر بڑھاپا چاندی کا لحاف اوڑھ کر پھر تنہائیوں میں وہی محفلیں تلاشتا ہے یاروں کی ۔۔

 وہ عکس عاشقی کھو جاتا ہے کہیں ۔

انسان کہیں بھی کسی بھی غافل ہو جاتا ہے مگر رب کا دامن نہ چھوڑے ۔

موسموں کی خاطر رب کا رستہ نہ بھولے ۔

جو ناکام ہوتا رہے عمر بھر میں ، بہر حال کوشش تو عاشق نہ چھوڑے

کہیں نہ کہیں اس چوٹ کو رسنے دے اس کا مرہم کسی بھی شے کو نہ بننے دے جو اللہ کی محبت کی ضرب ہے اسے زخم بننے دے ۔

یہ رشتہ محبت کا قائم ہی رکھے جو سو بار ٹوٹے تو سو بار جوڑے ۔