سمیہ عثمان

وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ اس دن صبح ہی سے سورج آگ برسا رہا تھا ۔گرمی اپنا ریکارڈ توڑ چکی تھی۔ گرم گرم ہوائیں چل رہی تھیں ۔لوکے تھپیڑے جب جسم کو لگتے، تو یوں محسوس ہوتا گویا پورا بدن آگ میں جھلس رہا ہو۔ زمین ایسے تپ رہی تھی جیسے اس پر انگارے رکھ دیے گئے ہوں۔ لوگ سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئے کہ اس غضب کی گرمی اور لو کے تھپیڑوں سے بچ سکیں۔ سڑکیں ویران سنسان، کہ جیسے یہاں کوئی بستا ہی نہ ہو۔ انسان تو انسان بے زبان جانور بھی اس گرمی سے لاچار تھے۔ یہ ایک عذاب ہی تو تھا، جس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔"بے شک گرمی کی شدت جہنم کی لو میں سے ہے۔"


گرمی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی کہ سب رب العالمین کی طرف متوجہ ہو کر آہ و زاری کرنے لگے، گڑگڑانے لگے، کیونکہ وہی ہے جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔لبوں پربس ایک ہی دعا جاری تھی۔اے اللہ ایسی بارش دے جو نفع دینے والی ہو۔اسی اثنا میں رحمت الہی جوش میں آگئی۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے "بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔یکایک ہر طرف اندھیرا چھا گیا،آسمان پر کالی گھٹائیں چھا گئیں، اور انگارے برساتا سورج بادلوں کی اوٹ میں کہیں چھپ گیا۔ تند و تیز ہوائیں چلنے لگیں، اتنی تیز کے ابھی درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گی اور اس کے ساتھ ہی موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ پل بھر میں موسم تبدیل ہو گیا۔ ندی نالے بہنے لگے، گلی کوچے پانی سے بھرنے لگے۔

بارش تقریبا آدھے گھنٹے تک برستی رہی۔ وہ چہرے جو شدید گرمی کی وجہ سے مرجھا گئے تھے، اب بہار میں کھلے پھول کی طرح کھل اٹھے۔ وہ سڑکیں جو چند ساعتیں پہلے کسی سنسان ویرانے کا منظر پیش کر رہی تھیں، اب لوگوں کے ہجوم سے با رونق لگ رہی تھیں۔ہر چیز دھل کر صاف ہو چکی تھی۔خوشی ہر ایک کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔ بلبل اپنی خوبصورت آواز میں خوشی کے گیت گار گا رہی تھی۔یہ خوبصورت منظر آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا، اور دلوں کو سرور بخش رہا تھا۔اس حسین و جمیل منظر کو دیکھ کر میرے لبوں پر بے اختیار یہ آیت جاری ہو گئی جس کا ترجمہ ہے: وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے ،تاکہ وہ بادلوں کو حرکت میں لے آئیں۔پھر انہیں آسمان کی وسعت میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے۔پھر انہیں تہ در تہ کر دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ ان بادلوں کے بیچ میں سے قطرے گرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جنہیں وہ چاہتا ہے، ان پر بارش برساتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ جب کہ بارش برسنے سے پہلے وہ بالکل مایوس ہو چکے تھے"۔