اہلیہ سلیمان
"اور جب تمہارے رب نے خبردار کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے البتہ میں ضرور باضرور تم کو زیاده دوں ااور اگر تم نافرمانی کرو گے تو بے شک میرا عذاب سخت ہے۔" وه سوره ابراہیم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچی تو اس کے ذہن میں خیال آیا، اور وه خود کلامی کے سے انداز میں کہنے لگی:

"دیکھو کتنا پیارا انداز ہے میرے پیارے اللّٰہ پاک کا، اللّٰہ پاک نے نعمت کو نہیں بلکہ زیادتی نعمت کو شکر کے ساتھ مشروط کیا ہے، وہ بھی کس طرح کہ ہمیں صرف شکر کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کا نتیجہ یہ بتایا کہ نعمتوں میں اضافہ ہوگا یعنی ہمیں یہ نہیں فرمایا کہ تم میرا شکر نہیں ادا کرو گے تو تمہیں اپنی نعمتیں نہیں دوں گا، یا یہ نہیں فرمایا کہ تم ضرور میرا شکر ادا کرو پھر میں تمہیں زیاده دوں گا، نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو تو میں ضرور باضرور تم کو زیاده دوں گا۔ اور آگے کیا فرمایا، "میرے اللّٰہ نے کہ اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب شدید ہے" قربان جاؤں میں اپنے رب کے، شکر کرنے والوں کے لیے نعمت کی زیادتی کا وعدہ ہے مگر ناشکری کرنے والوں کو صرف اتنا کہہ کر ڈرا دیا کہ میرا عذاب شدید ہے، یہ نہیں کہا کہ میں نعمت چھین لوں گا نہ یہ کہا کہ میں ضرور ہی تم کو عذاب دوں گا۔
صرف عذاب سے ڈرا کر اس بات کی طرف اشاره کر دیا کہ ضروری نہیں کہ ہر ناشکرے کو عذاب ہو بلکہ معافی کا بھی امکان ہے۔ (سُبْحَانَ اللّٰہ)
اے انسان! تو اپنے رب کی دی ہوئی ہر نعمت کا تو شکر ادا نہیں کر سکتا، مگر ایک بار صرف ایک بار اپنے رب کا شکر ادا کر کے تو دیکھ، دیکھ تیرا رب تجھے کیسے نوازتا ہے۔ مگر افسوس! اے انسان تو کتنا ناشکرا ہے، تو اپنے آس پاس بکھری ہزاروں نعمتوں کا شمار چھوڑ کر صرف اس ایک چیز کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے اور اپنے اتنے رحیم و کریم رب سے شکوے شکایات کرنے لگتا، جسے تیری بہتری کے لئے تجھ سے محروم رکھا گیا۔
بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی تھی اور چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا، آنسو صاف کر کے اس نے یہ دعا مانگی تھی۔ یا اللّٰہ! تو مجھے بھی شکر گزار بندوں میں سے بنانا۔(آمین) آج اس نے کلامِ پاک سے شکر کرنا سیکھا تھا، اور پختہ ارادہ کیا تھا کہ آئندہ شکر کو اپنی زندگی کا اہم جز بنائے گی اور ناشکری کو اپنی زندگی سے نکال پھینکے گی۔ آپ کا بھی یہی اراده ہے نا!!!