فاطمہ مفتی محمد حنیف

ہر منظر دوسرے منظر سے زیادہ خوفناک ہے۔ہر کہانی پہلی کہانی سے زیادہ ہولناک ہے۔ ہر تصویر دوسری تصویر سے زیادہ غمناک ہے۔ہر لاشہ دوسرے لاشے سے زیادہ مسخ ہے۔ ہر زخم دوسرے زخم سے زیادہ دردناک ہے۔ہر روز کا ظلم پچھلے دن کے ظلم سے زیادہ شدید ہے۔ ہر شب گزشتہ شب سے زیادہ خطرناک ہے ۔امید ہے کہ تھک چکی ۔ امن کی آرزو ہے کہ جل چکی ۔نہ دن کی روشنی ڈھارس بندھاتی ہے۔ نہ شام کی خنکی سکون دیتی ہے، زندگی کو زندگی کی تلاش ہے۔ آزادی کس قدر گراں شے ہے، یہ اپنے عوض ہر قیمتی متاع کی قربانی مانگتی ہے۔۔۔۔


ان خاموش لفظوں کی عکاسی ننھی پری کی ویران آنکھیں کررہی تھیں ۔ ایک ننھے مجاہد کا خوف ودہشت میں ڈوبا چہرا کررہا تھا۔گو یا وہ کچھ ڈھونڈ رہا ہے جو اسے مل نہیں رہا، ہسپتال میں خالی خالی نظروں سے اپنے دائیں بائیں جانب اس کی خالی نگاہیں کسی کی متلاشی تھیں۔
کیا ہوا بیٹا کچھ کھوگیا ہے؟؟
کسی کی آواز پر اس نے آنکھوں کے سفر کو روکا ۔۔وہ ہڑبڑایا ۔۔نہیں نہیں کچھ نہیں بس میرے ماما بابا نہیں مل رہے۔انہیں ڈھونڈ رہا ہوں

انہیں پکار رہا ہوں ویسے میں بہت مضبوط ہوں میں باہمت ہوں پریشان نہیں۔۔۔۔میں مضبوط ہوں۔ ایک بار پھر دہرایا اور آنکھوں سے نرگس کے مانند موتی جھڑنا شروع ہوگئے اور وہ اپنی خالی گود کو دیکھ کر ایک بار پھر کسی قیمتی اثاثہ کو تلاش کرنے لگا۔۔

وہ ننھا معصوم کیسے سمجھے کہ اس کی تلاش تو اب عالم فانی سے کوچ کرگئی ہے۔اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رب کے حضور پیش ہوگئی ہے۔وہ اس اذیت ناک دن اور کرب میں ڈوبی راتوں سے بہت دور جنت کے محلات میں پرسکون ہیں۔ شاید اس وقت حکمرانانِ وقت بھی یہی سوچ کر خاموش ہیں کہ وہ جنت میں جاچکے ہیں شہید ہوچکے ہیں جو لہو بہے گا وہ جنت کی مشک ہوگا ممکن ہے اسی گمان پر سب سکوتِ صحرا میں خاموشی کی لگام پہنے ہیں۔