فریحہ معراج

شیکا ،معمولی پڑھا لکھا گاؤں میں رہنے والا اپنی ماں کا لاڈلا سپوت تھا۔کچھ عرصہ کام دھندا تلاش کرنے اور مایوس ہونے کے بعد گھر میں بے کار بیٹھا رہتا تھا۔ گو کہ کوئی بری عادت نہ تھی تاہم کوئی خوبی بھی نہ تھی۔ بوڑھی ماں گھر کے کام بھی دیکھتی اور باہر کے بھی۔حالات سے پریشان ماں نے بیٹے کی نوکری کے لیے خود ہی ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے لیکن شیکا جہاں بھی گیا کچھ ہی دن میں نکالا گیا یا خود چھوڑ آیا پہلے جمعہ کی نماز کے لیےچلا جاتا تھا رفتہ رفتہ وہ بھی ترک ہوا۔ سارا دن چارپائی توڑتا رہتا ، کھاتا پیتا پھر سو جاتا۔


ایک روز پڑوسن خالہ، امّاں کے پاس ایک حل لے کر آئیں، "میری مانو تو تم اس کو ساتھ والے بابا جی کو دکھا دو، بہترین دم کرتے ہیں " خالہ بانچھوں سی رِستی پان کی پیک صاف کرتے بولیں۔ اماں بھی سوچ میں پڑ گئیں۔ شیکا نیم خوابی کی حالت میں ساری گفتگو سنتا رہا۔ دوسرے ہی روز امّاں دم شدہ پانی لیے اس کے سر پر موجود تھیں ،ِشیکے نے نہایت تابعداری سے چھڑکاؤ کروایا بلکہ کروٹ بدل بدل کر یقینی بنایا کہ کوئی جگہ رہ نہ جائے۔

اگلا دن جمعہ تھا، امّاں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب لاڈلے کو نہا دھو کر عید والا جوڑا پہنے تیار دیکھا ۔بلائیں لیں ،صدقے گئی۔ کچھ روز بہت اچھے گئے، لگنے لگا کہ سب سدھرتا جائے گا۔

کچھ دن بعد کی بات ہے، دن چڑھ گیا لیکن شیکے نے اوڑھی غفلت کی چادر نہ اتاری۔امّاں نے جب جھنجھوڑا تو بولا امّاں! مجھے لگتا ہے باباجی کے دم میں' دم' نہیں ہے! ماں آنسو پونچھتے اس کے لیے ناشتہ بنانے چلی گئی، جب خدا نے ہی رسّی دراز کر رکھی تھی تو وہ کون تھی جو اس کا رزق روک لیتی۔

دن گزرتے گئے اور ایک دن امّاں بھی گزر گئی ،نماز ِجنازہ کا وقت تھا، وضو کے فرائض اس کی زندگی کی طرح گڈ مڈ تھے ۔منتشر دماغ کے ساتھ اس نے وضو کیا ، اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ ہی آنسوؤں کا گولہ حلق میں پھنس گیا اور وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگا ، نہ جانے کتنی مدّت بعد وہ نماز کے لئے کھڑا ہوا تھا پچھتاوے کے سوا بھولی ہوئی نماز میں کچھ یاد نہ تھا اس کو. سلام پھیر کر سب اس کو دلاسہ دینے لگے لیکن اس کے دکھ کا مداوا ممکن نہ تھا ۔

شام کے بعد رات کی سیاہی پھیل گئی ،آہستہ آہستہ سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔شیکے کے ویران گھر میں لاڈ اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ وہ نیم جان قدموں سے گھر سے نکل پڑا۔

تہجّد کے وقت امام صاحب مسجد میں داخل ہوئے تو ایک لرزتا بلکتا سایہ دیکھ کر ٹھٹک گئے ، ماں سے بچھڑے لاڈلے کی سجدہ ریزی خدا کو منا نے کےدرپے تھی۔ مسجد،شیکے کی سسکیوں سے وقفے وقفے سے گونج رہی تھی۔ ایک تارہ آسمان پر چمک رہا تھا، صبح صادق کا نور تاریکی پر غالب آنے کو تیار تھا ۔