تحریر و تحقیق : توقیر بُھملہ

بشکریہ طاہر محمود بلوچ

اگر آپ عالمی ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں تو پھر "کوکب الشرق" "ام کلثوم" کا نام آپ کے لیے اجنبی نہیں ہوگا۔

ام کلثوم مصری مغنیہ، اداکارہ، گیت کارہ اور عالم موسیقی کی طاقتور آوازوں میں سے ایک طاقتور آواز تھی۔ کہتے ہیں کہ اگر موسیقی کی کوئی شکل ہوتی تو وہ ام کلثوم جیسی ہوتی۔ ام کلثوم کو "مصر کی آواز" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

آپ شاید اس بات سے لاعلم ہوں گے کہ اتنی بڑی گلوکارہ نے،جسے سننے کے لیے عرب و عجم امڈ پڑتے تھے ،علامہ محمد اقبال کا کلام شکوہ جواب شکوہ جس کے دونوں حصوں کا عربی ترجمہ " حدیث الروح" کے نام سے ہے ،اسے گا رکھا ہے ، اور سننے والے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کوئی یہ نہ بتائے کہ اسے "محمد اقبال باكستاني " نے لکھا ہے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ شاید یہ کوئی آسمانی یا الہامی صحیفے کا حصہ ہو۔ عربوں کے بقول اگر ام کلثوم اس کلام کو حدیث الروح کے نام سے نہ گاتی تو عرب ایک عجمی فلسفی سے محروم رہتے۔

علامہ محمد اقبال کی کتب و کلام کا جہاں دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے وہاں بیشتر کتب کا عربی زبان میں بھی ترجمہ ہوا اور اہل عرب کے ایسے نابغہ روزگار مصنف جن کے بغیر جدید عربی ادب ادھورا ہے انہوں نے تحقیقی و توصیفی کتب بھی لکھی ہیں۔

چند بڑے ناموں میں سے دو کا ذکر کرتا ہوں؛

عالم اسلام کے صف اول کے شاعر الأستاذ عباس محمود العقّاد لکھتے ہیں کہ محمد اقبال وہ پہلا شخص ہے جسے بلا امتیاز "شاعر اسلام" ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مشرق کو جس نَشاۃِ ثانِیَہ کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے وہ محمد اقبال کی شاعری میں پوشیدہ ہے جو شاعری کی بجائے زمینی و آسمانی گتھیاں سلجھانے والا فلسفہ ہے ، جسے سمجھنے کے لیے بیدار مغز کی ضرورت ہے۔ اگر محمد اقبال کی شاعری کا ترجمہ عربی زبان میں نہ ہوتا تو ہم نے اسے فارس کا شاعر ہی سمجھتے رہنا تھا۔

 "الشاعر الثائر" مصری ناول نگار اور شاعر نجیب الکیلانی کی محمد اقبال پر  تصنیف کردہ کتاب کا عنوان ہے، جس کا مطلب ہے " انقلابی شاعر" جس میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اقبال "شاعری کو خالص فلسفہ نہیں بنانا چاہتے تھے،" اس لیے وہ فلسفہ بیان کرتے ہوئے ایسے استعارات اور ایسی تراکیب استعمال میں لاتے ہیں جو ان سے قبل کوئی بھی بیان نہیں کرسکا۔ فلسفہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے شاعری کو محض ہوا کی سرگوشیوں، اونگھتے ہوئے ستاروں کی جھلملائیں، پھولوں کے حسن جیسی اساطیری باتوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ علمی و  فکری دیانتداری، وجود کی لطافتوں روح کی حقیقتوں کو موضوع بناتے ہوئے ایسا سچا اور مبنی بر حقیقت سخن پیش کیا ہے جو ذہنوں کو نکھارے۔ جو روح کو حقیقتوں کے آئینے میں اپنا اصل رنگ دیکھنے پر مائل کرے۔ انسان کی خودی ،آزادی اور جدوجہد کے گرد گھومتی ہوئی ایسی دستاویزات جن کے متعلق صرف پڑھ کر ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ محمد اقبال کا تخیل کتنا بلند پرواز تھا کہ آسمانی خبروں کو زمین زادوں تک پہنچا رہا تھا۔

اقبال کا شاعرانہ اور فکری نظریہ انقلاب، تحریک ، اندرونی اضطراب اور تجدید، پابندیوں کو توڑنے اور خودی کی آزادی پر مبنی ہے۔

"ہر وہ زندگی جس میں کوئی تجدید یا انقلاب نہ ہو موت کے مترادف ہے۔ تصادم قوموں کی زندگی کی روح ہے، ایک قوم ہر وقت اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوتی ہے، تقدیر کے ہاتھ میں ایک تیز دھاری تلوار ہوتی ہے جس کا نہ کوئی مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی چیز اس کے مقابلے میں مزاحمت  کرسکتی ہے اور نہ اس کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کوئی کرسکتا ہے ۔"

مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر