اور پھر کیا ہوگا وہی ڈاکٹر کی معمول کی باتیں۔ یہ نیا ٹیسٹ کروا کر دیکھتے ہیں، تھوڑا سا مسئلہ ہے وہ اس ٹریٹمنٹ سے ٹھیک ہو جائے گا، یہ ٹیسٹ دوبارہ کراؤ، یہ دوا شروع کر کے دیکھو، شوہر سے کہو ٹیسٹ کروائیں میں لکھ دیتی ہوں، طاقت کی چیزیں کھاؤ، پریشان مت ہوا کرو، خوش رہا کرو،اللہ نے چاہا تو اولاد ضرور ہوگی۔

پانچویں قسط
مہوش کرن

”کیوں بھئی تم دونوں کو زیادہ ہی شوق ہے اجالا کے ساتھ باورچی خانے میں کام کرنے کا؟ ہر وقت وہیں موجود رہتے ہو اور تو اور سِل پر دھنیا اور ہری مرچ کی چٹنی بھی پیس ڈالی۔“ اجالا کی ساس دانش اور کاشف کو اپنے کمرے میں بلا کر ڈانٹ رہی تھیں۔

”تو کیا ہوا امی، شام میں ہم سے روزہ نہیں گزر رہا ہوتا تو سوچا ان کی مدد کر دیں۔ ہمیشہ ہی کرتے ہیں۔ وہ تو شروع سے ہی اکیلے کام کرتی آ رہی ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ عصر کی نماز پڑھ کر مشین میں پیس دیں گی لیکن مجھے شوق ہوا کہ پچھلے دنوں جیسی چاٹ دکان سے کھا کر آیا تھا ویسی ہی بنائی جائے۔ تو بس میں نے خود ہی پیس لی۔ آپ اور شہنیلا تو کچن میں ہوتے ہی نہیں ہیں۔“ کاشف نے بڑی ہمت کر کے یہ بات بول دی۔

”ہاں وہ تو اب مہرین کی وجہ سے بھابی کو تھوڑی مدد مل جاتی ہے ورنہ ہم تو سارے کام چھوڑ کر یہ نہیں کر سکتے تھے۔“ دانش نے بولا۔

”تو کیا ہم سارے کام چھوڑ کر اجالا کی خدمتوں میں لگ جائیں؟ میری عمر ہے کیا ان سب کاموں کی اور روزے رکھنے کی؟ اور شہنیلا تو نوکری کرتی ہے صبح کی گئی شام کو آتی ہے میری بچی، تھکن سے چور اسے تو کوئی کچھ نہ ہی کہے تو اچھا ہے۔“ ماں کو دونوں بیٹوں کا بھابی کے حق میں بولنا ناگوار گزرا تھا۔

”امی ان باتوں سے روزوں کی چھوٹ نہیں ہوجاتی، آپ بزرگ ہیں لیکن شکر ہے کہ بیمار نہیں رہتیں اور شہنیلا تو جوان ہے پھر بھی روزے نہیں رکھتی۔ ہم بھی تو آفس جاتے ہیں گرمی میں باہر نکلتے ہیں، مہرین بچوں کو سنبھالتی ہے لیکن ہم سب تو روزے رکھتے ہیں کیونکہ روزے فرض ہیں۔“ دانش نے کہا۔

”چلو چلو مجھے زیادہ دین نہ سکھاؤ۔“ وہ ان دونوں کی باتوں سے بے زار ہو رہیں تھیں۔ ”ٹھیک ہے دین نہ سہی، دنیا ہی سہی۔ آپ یہ بھی تو سوچیں کہ بھابی روزہ رکھتی ہیں لیکن سحری کے اور نماز فجر و دعاؤں کے بعد بھی سوتی نہیں بلکہ آپ دونوں کا ناشتابناتی ہیں۔ اور شام میں بھی اکیلے افطاری بناتی ہیں جو کہ آپ لوگ بھی روزے داروں کی طرح ہی کھاتے ہیں۔ تو اگر ہم نے ان کی مدد کر دی تو کیا ہوگیا؟“ کاشف کو شاید آج بولنے کا دورہ پڑا تھا۔

”ارے دانش اپنی بیوی مہرین کے پیچھے چاپلوسی کرتا پھرتا ہے تو ساتھ بھابی بھی ہوتی ہے، تم کس لیے صرف اپنی بھابی کے لیے اتنے دردمند ہوئے جارہے ہو، جب بیوی آئے گی تو کر لینا اُس کے لیے مگر اجالا سے اتنی ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں“۔ وہ کب چپ رہنے والی تھیں۔

”اللہ جانے آپ لوگوں کو ان سے کیا چڑ ہے۔ ہم دونوں تو شروع سے ہی ان کے ساتھ ایسے ہیں، اور مہرین تو کچھ سال پہلے آئی ہے۔“ دانش جھینپ گیا۔

”جب میری بیوی آئے گی تو جو مجھے کرنا ہوگا وہ میں کر ہی لوں گا اور سب دیکھیں گے۔ لیکن جب دانش مہرین بھابی کی مدد یا خیال کرتا ہے تو آپ بس بڑبڑاتی ہیں مگر جب یہی کام بھائی جان کرتے ہیں تو آپ کو اتنا برا کیوں لگتا ہے؟ جب ان کے دانت میں شدید تکلیف تھی، سوجا ہوا منہ اور بخار میں پڑی تھیں۔ بھائی جان انہیں شیک بنا کر دیتے تھے، میں چائے ڈبل روٹی دے دیتا تھا تو آپ نے کس قدر اعتراض کیا تھا۔ مطلب کیا تھا اس اعتراض کا؟ ظاہر ہے آپ نے اور شہنیلا نے انہیں پوچھا تک نہیں تو کیا ہم بھی انہیں بھوکا مار دیتے؟“ کاشف نے بڑی تلخ حقیقت کھول کر ان سے ہی سوال کر ڈالا تھا۔

”اور کیا، مہرین بھی اسی وجہ سے اپنے میکے رہنے گئی تھی کیونکہ اس کا پیر جلا ہوا تھا۔ اتنے دن سے تو بھابی ہی اس کا خیال رکھ رہی تھیں۔ مگر ان کے بخار اور دانت کی لمبی تکلیف دیکھ کر وہ چلی گئی کہ کم از کم میری اور بچوں کے کاموں کی ذمے داری تو بھابی پر سے کم ہو جائے۔ یہ بھی بھابی کی اچھائی ہے کہ وہ بیماری میں بھی یہیں تھیں اور جب بخار اور درد کم ہوتا تو اٹھ کر کچن دیکھ لیتی تھیں۔“ دانش نے ترکی بہ ترکی کہا۔

”توبہ توبہ، کیا قینچی بلکہ تیز دھار چھری کی طرح زبان چل رہی ہے تم دونوں کی۔“ ساس شدید سٹپٹا گئی تھیں، آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔

”اوہ ہاں، چھری سے یاد آیا جب پچھلی بقر عید پر بھائی جان قربانی اور تقسیم کے کام ختم ہونے کے بعد چھریاں، چاقو اور چاپڑ وغیرہ دھو رہے تھے تو آپ نے کتنی سختی سے منع کیا تھا کہ تم چھوڑ دو ندیم، تمھارا ہاتھ کٹ جائے گا، اجالا دھو لے گی۔ قسم سے بھائی جان نے کتنی اپنائیت سے کہا تھا کیوں وہ جو دھوئے گی تو اس کا ہاتھ نہیں کٹ سکتا۔ اور آپ نے کتنی لاپروائی سے جواب دیا تھا کہ کوئی بات نہیں اسے تو عادت ہے۔“ کاشف نے پھر سے ایک بات یاد دلائی۔ ”اففف، بس بہت ہوگیا۔ اب مجھے مزید کچھ نہیں سننا۔ تم دونوں جاؤ یہاں سے اور آئندہ کے لیے کان کھول کر سن لو کہ میرے سامنے اس کے حق میں باتیں کرنے کی غلطی نہ کرنا۔“ ساس نے غضب ناک ہو کر کہا۔ دانش اور کاشف جا چکے تھے، اور وہ پیچ و تاب کھا رہی تھیں کہ آخر اجالا نے ان دونوں کو کیا گھول کر پلا دیا ہے، مہرین کی بھی اس سے بڑی گاڑھی چھنتی ہے اور بچے بھی اس پر جان دیتے ہیں۔ یوں تو نہیں ہونا چاہیے، لگتا ہے کچھ سنجیدگی سے کرنا پڑے گا ورنہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ روشن سے مشورہ کرتی ہوں پھر شہنیلا سے بھی بات کروں گی۔ انہوں نے دل ہی دل میں پلاننگ شروع کر دی تھی۔

٭٭٭ ”السلام علیکم، کیسی ہو بیٹی؟“ اجالا کی امی فون پر کہہ رہی تھیں۔ ”جی امی اللہ کا شکر ہے، ٹھیک ہوں۔“

”جب سے مہرین کے پیر کا حادثہ ہوا ہے تم نے تو رہنے آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بس گھڑی بھر کو آتی ہو شکل دکھا کر چلی جاتی ہو۔“

”جی امی، میرا خود بہت دل چاہ رہا ہے کہ ڈھیر سارے دنوں کے لیے آؤں۔ پر کیا کروں پہلے مہرین کے پیر کا مسئلہ تھا اس لیے میں نہیں آ سکی، جب وہ بہتر ہوئی تو اس کی بہن کی شادی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور وہ اپنی میکے رہنے چلی گئی تو پھر میں نہیں آسکی۔“ اجالا نے وضاحت دی۔

”یعنی جو بھی وجہ ہو تم ہی اپنے کام نہیں کر پاتی۔“ امی نے دکھ سے کہا۔ ”اور کیا کر سکتی ہوں امی، آپ تو سب کے مزاج جانتی ہیں۔“ اجالا کے لہجے میں بے چارگی تھی۔ ”کوئی بات نہیں بیٹا، تم پریشان مت ہو۔ میں تو بس تمھاری محبت میں کہہ رہی تھی۔ اللہ تمھیں اپنے گھر میں ہنستا بستا رکھے، اولاد کی خوشیاں دکھائے، آمین۔

یہ بتاؤ اس مہینے ڈاکٹر کے پاس بھی جانے کا وقت نکالا یا نہیں؟“ امی نے پوچھا۔ ”امی آپ تو جانتی ہیں اس معاملے میں میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوتی۔ مجھے تو بے حد انتظار ہے کہ اللہ مجھے بھی اولاد کی نعمت سے نواز دیں۔ مگر ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ کسی مہینے تو ندیم بڑے آرام سے ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ کے لیے مان جاتے ہیں جبکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ٹالتے ہی رہتے ہیں اور ہفتوں گزر جاتے ہیں۔ میں وجہ پوچھتی ہوں تو بتاتے بھی نہیں۔ پھر اک دم جوش میں کہتے ہیں کہ اب چلو۔ دوسری طرف وہ اپنا ٹیسٹ کروانے کے لیے کبھی راضی نہیں ہوتے۔ حالانکہ ڈاکٹر بہت زور دیتی ہیں کہ صورتحال مکمل سمجھ نہیں آتی جب تک شوہر اور بیوی دونوں کے ٹیسٹ نہ ہوجائیں۔ امی، کیا پتا ندیم کو کسی چیز کی کمی ہو تو اسے دوائیوں سے پورا کیا جا سکے۔“ ”اجالا وہ مرد ہیں اور مرد تو کبھی اپنی کمی کوتاہی کو مانتے تک نہیں تو پھر وہ ٹیسٹ کروا کر کاغذ پر ثبوت مہیا کرنے کے لیے بھلا کیسے راضی ہو جائیں گے۔“

”مگر امی اولاد تو ہم دونوں کی ہوگی نا۔ اگر میرا علاج ہو رہا ہے تو میرے شوہر کا کیوں نہیں ہو سکتا۔ دونوں صورتوں میں افاقہ ہونے سے اولاد کی خوشی تو دونوں کو بلکہ پورے گھر کو نصیب ہوگی۔ میری ساس بھی کبھی ندیم کو ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے نہیں کہتیں البتہ جب ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ کی تاریخ قریب ہو تو نجانے کیا کھسر پھسر شروع ہوجاتی ہے۔ گھنٹوں روشن باجی سے ڈسکشن چلتی رہتی ہے۔“

”ہاں بات تو تمھاری ٹھیک ہے، لیکن اپنا دل برا نہ کیا کرو اس سے صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ بچہ ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار اللہ کی مرضی کے بعد عورت کے صحت مند اور خوش ہونے پر بھی ہوتا ہے۔ خود کو ذہنی دباؤ سے بچایا کرو۔“ ”جی امی کوشش تو کرتی ہوں۔ اچھا میں کام چھوڑ کر آئی تھی پھر بات کروں گی۔ شاید میری ساس آواز دے رہی ہیں۔ اللہ حافظ۔۔“ اجالا نے گھبرا کر امی کا جواب سنے بغیر ہی فون بند کردیا اور کمرے سے باہر بھاگی کیونکہ اسے اپنی ساس کی باتیں سننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔


”جی امی، آپ نے بلایا تھا؟“ اجالا نے کمرے سے باہر جاکر ساس سے پوچھا۔ ”ہاں بھئی ہم تو بلاتے ہی رہ جاتے ہیں، نواب زادی صاحبہ کمرے سے باہر کب نکلتی ہیں۔“ ”آپ بتائیں کیا کام ہے۔“

”جب تمھیں ڈاکٹر کے پاس جانا تھا اور ندیم نے منع کر دیا تھا اس بات کو دس دن ہوئے ہیں یا پندرہ دن ہوگئے؟ ”جی آج پندرہ دن ہو چکے ہیں۔“ اجالا نے جواب تو دے دیا مگر دل میں شدید اکتاہٹ محسوس ہوئی کیونکہ اسے انتہائی ذاتی معاملات میں سب لوگوں کی دخل اندازی بالکل پسند نہیں تھی۔ ”چلو ٹھیک ہے، اب تم جاؤ۔ البتہ شام چائے پر روشن آئے گی تو اچھا انتظام کر لینا۔ کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔“ انہوں نے آرڈر دیا۔

وہ چپ چاپ کمرے سے باہر نکل آئی اور باورچی خانے میں کام کرنے چلی گئی۔ جہاں مہرین پہلے سے موجود تھی۔ ”کیا ہوا بھابھی، کیا امی نے کچھ کہا ہے؟“ مہرین نے پوچھا۔ ”وہ تو ہمیشہ ہی کہتی رہتی ہیں اب عادت ہوگئی ہے۔ شام میں روشن باجی آئیں گی، ذرا چیزیں سوچ لو کہ کیا بنائیں تاکہ ابھی سے کام شروع کریں۔“ اجالا نے بتایا۔

”کوئی تو بات ہے آپ کا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے؟“ مہرین نے پھر فکرمندی سے پوچھا۔ ”پتا نہیں کیوں دل بیٹھا جا رہا ہے، لگ رہا ہے کچھ ہونے والا ہے۔ میں ظہر کی نماز پڑھنے جارہی ہوں۔“ اجالا نے کہا۔ ”اللہ رحم کرے گا، آپ پریشان نہ ہوں اور سکون سے نماز پڑھ کر آئیں۔ میں جب تک کام دیکھ رہی ہوں۔“ مہرین نے یہ کہہ کر پانی کا گلاس اجالا کی طرف بڑھایا۔

اجالا نے پانی پیا اور نماز پڑھنے چلی گئی۔ اسے اپنی ساس کی باتوں نے واقعی پریشان کر دیا تھا۔ جانے کیوں اجالا کو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کے ڈاکٹر کے پاس جانے یا نہ جانے کا تعلق کہیں نہ کہیں روشن سے ہے حالانکہ روشن بظاہر تو ہمیشہ اس کا ساتھ ہی دیتی تھیں۔

دوپہر سے شام ہوئی اور مہمان داری کا وقت آ پہنچا۔ چائے اور لوازمات کے دوران کوئی انوکھی بات نہ ہوئی لیکن دل بے چین ہی رہا۔ خلافِ معمول روشن گھر جانے کے لیے جلدی اٹھ گئی۔ ندیم اور ساس اسے چھوڑنے باہر تک گئے۔ اجالا برتن سمیٹنے باورچی خانے میں چلی گئی۔ وہ فارغ بھی ہوگئی مگر تب تک ندیم اندر نہیں آئے تھے۔ اس نے سوچا، ”شاید باہر لان میں بیٹھ گئے ہوں گے۔ میں بھی چلی جاتی ہوں اب تو سب کام بھی ختم ہو گئے۔“ ”ساری بات سمجھ گئے نا، تو بس اب تم کل بےفکری سے اجالا کو ہسپتال لے جانا۔ ابھی تک تو اگلے مہینے کی بھی یہی تاریخ مناسب آ رہی ہے۔ لیکن پھر بھی میں سات دن پہلے چیک کر لوں گی کہ ستاروں کی پوزیشن کیا ہے۔“ روشن بول رہی تھی۔

”اوکے، باجی آپ فکر نہ کریں. جیسے آپ بتائیں گی میں اسی حساب سے کام کروں گا۔“ ندیم نے جواب دیا۔ روشن ندیم کو سمجھا کر شاید بات ختم کر رہی تھی اور جو آخری جملے اجالا کے کانوں کو سنائی دیے وہ ڈاکٹر کے پاس نہ جانے والی الجھن کو سلجھانے کے لیے کافی تھے۔ وہ باہر لان میں نہیں جا پائی تھی کیونکہ اس کے قدم وہیں جم گئے تھے۔ بڑی مشکل سے وہ واپس اپنے کمرے میں گئی۔

تھوڑی دیر بعد جب ندیم کمرے میں آئے تو دیکھا کہ اجالا بالکل ساکت بیٹھی ہے۔ ایک لمحے رکے بغیر اس نے فوراً کہا، ”باجی کیا کہہ رہی تھیں، کون سی تاریخیں، کیسے ستارے؟“

”تم چھپ چھپ کر ہماری باتیں سن رہی تھیں؟“ ندیم نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر کے الزام لگا دیا۔ ”مجھے کچھ چھپ کر سننے کی ضرورت نہیں، صاف آواز آئی ہے البتہ آپ اتنے عرصے سے مجھ سے یہ سب چھپا رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی مقررہ وقت پر ڈاکٹر کے پاس لے جاتے اور کبھی ٹال مٹول کرتے رہتے؟“ اجالا نے تصدیق چاہی تھی۔

”ہاں بالکل، یہی وجہ ہے۔ تم کیا بگاڑ لو گی۔“ ندیم نے غصے سے کہا۔ ”مگر کیوں، اب ہماری قسمت کا فیصلہ کیا روشن اپنے ستاروں سے پوچھ کر کریں گی؟“ ”تمیز سے بات کرو، وہ باقاعدہ زائچہ بناتی ہے۔ اس کے پاس پورا علم ہے۔“ ”ضرور ہوگا، ہاتھ دیکھ کر بتا تو دیا تھا کہ اولاد نہیں ہوگی۔ تو اب زائچے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب ہونی ہی نہیں تو پھر ستاروں کی گردش سے کیا لینا دینا؟ ہونہہ، میں نہیں مانتی ایسے کسی علم کو۔ کیونکہ علم موجود ضرور ہے لیکن درست نہیں ہے تب ہی اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ اپنی نمازیں، روزے، عبادتیں، حج، عمرہ آپ نے تو سب کچھ ہی داؤ پر لگا دیا۔ یہ کیا کر دیا آپ نے ۔۔۔مجھے اتنا عرصہ کچھ بھی نہیں بتایا، اپنی اور میری ذاتی زندگی کو یوں تماشا بنا دیا وہ بھی سب جانتے ہوئے، اپنی اولاد خالق کی بجائے خلق سے مانگنے لگے۔“ اجالا خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔ ”بس کرو، زیادہ لیکچر دینے کی ضرورت نہیں ہے، خاموشی سے اپنے کام کرو، کل ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔“ ندیم یہ کہہ کر کمرے سے چلے گئے۔

اور پھر کیا ہوگا وہی ڈاکٹر کی معمول کی باتیں۔ یہ نیا ٹیسٹ کروا کر دیکھتے ہیں، تھوڑا سا مسئلہ ہے وہ اس ٹریٹمنٹ سے ٹھیک ہو جائے گا، یہ ٹیسٹ دوبارہ کراؤ، یہ دوا شروع کر کے دیکھو، شوہر سے کہو ٹیسٹ کروائیں میں لکھ دیتی ہوں، طاقت کی چیزیں کھاؤ، پریشان مت ہوا کرو، خوش رہا کرو،اللہ نے چاہا تو اولاد ضرور ہوگی۔ ہاں بس اللہ سے ہی امید ہے، وہی واحد سہارا ہے۔ دنیاوی سہارے تو اپنا اصلی روپ دکھا رہے ہیں۔ اللہ آپ تو میرا ظاہر و باطن سب جانتے ہیں، میں جو کچھ مانگتی ہوں صرف و صرف آپ سے ہی اس کا سوال کرتی ہوں، پلیز مجھے ان لوگوں کے شر اور شرک سے بچا لیجیے گا۔ وہ بغیر لب ہلائے دل ہی دل میں اللہ تعالٰی سے دعائیں کرنے لگی۔ (جاری ہے ۔۔۔)