بس جی اب کیا تھا۔۔۔ وہ بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے بلکہ بستر پہ لمبے لیٹ گئے۔ اور زندگی سے مایوس ہو کر بولے:

”چل نیک بخت! اب مرنے کے لیے تیار ہو جا۔ نہ جانے کتنا زہر ہم دونوں کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ بس اب تو کسی بھی لمحے موت کا فرشتہ آنے والا ہے۔ سنا ہے چھپکلی کی کھال بہت زہریلی ہوتی ہے منٹوں میں آدمی کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ بس لیٹ جا اور کلمہ پڑھتی رہ۔۔۔۔

ام محمد سلمان


یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل فون کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ پی ٹی سی ایل بھی خال خال ہی کسی گھر میں لگا ہوتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے چاچی مہ لقا صبح صبح چاچا جی کے لیے ناشتا بنا رہی تھیں اور چاچا اپنے دفتر جانے کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ چاچی نے انڈہ پراٹھا بنایا اور دسترخوان پہ لا رکھا۔ چائے کا تھرماس اور کپ بھی لے آئیں۔ دونوں نے بڑے سکون سے ناشتا کیا پھر مزے لے لے کر چائے پی۔ کچھ دیر خاندانی معاملات پہ بات چیت بھی ہوتی رہی۔

چاچا کے دفتر جانے میں ابھی وقت تھا تو اخبار بینی کرنے لگے اور چاچی مہ لقا اٹھ کر برتن دھونے لگیں۔ ناشتے کے برتن ہی بھلا کتنے تھے! دو چار منٹ میں دھل گئے۔ آخر میں جب تھرماس دھونے کے لیے ڈھکن کھولا تو چاچی مہ لقا کے ہاتھوں کے طوطے، مینا، کبوتر، کوے سب اڑ گئے اور ایک چیخ مار کے دور بھاگیں۔ دھڑکتے دل پر دونوں ہاتھ رکھے بری طرح کپکپا رہی تھیں۔ چاچا جی بھاگ کر آئے۔۔۔۔ اری نیک بخت کیا ہوا؟ چاچی نے تھرماس کی طرف اشارہ کر دیا۔ انھوں نے جھانک کر دیکھا تو تھرماس کے اندر ایک مردہ چھپکلی پڑی تھی۔

بس جی اب کیا تھا۔۔۔ وہ بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے بلکہ بستر پہ لمبے لیٹ گئے۔ اور زندگی سے مایوس ہو کر بولے:

”چل نیک بخت! اب مرنے کے لیے تیار ہو جا۔ نہ جانے کتنا زہر ہم دونوں کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ بس اب تو کسی بھی لمحے موت کا فرشتہ آنے والا ہے۔ سنا ہے چھپکلی کی کھال بہت زہریلی ہوتی ہے منٹوں میں آدمی کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ بس لیٹ جا اور کلمہ پڑھتی رہ۔ شاید یہی ہمارے نصیب میں لکھا تھا۔“

چاچی دھواں دار رونے میں مصروف ۔۔۔ "ہائے اللّٰہ! میری کم بختی! یہ کیا ہو گیا۔ میں نے تو اچھا بھلا کل صبح تھرماس دھو کر رکھا تھا۔ یہ موئی چھپکلی اس میں کہاں سے گھس گئی؟"

چاچی یوں بین کرتی رہیں جیسے پورا خاندان کسی سیلاب میں بہہ گیا ہو۔۔۔۔ پھر چاچا کے ہی کچھ حواس بحال ہوئے تو خیال آیا ۔۔۔ "اری مہ لقا! چل ڈاکٹر کو تو دکھا آئیں پہلے۔۔ ہو سکتا ہے ہمارے بچنے کی کوئی سبیل نکل آئے۔" چاچی بھی فٹافٹ برقع پہن تیار ہو گئیں۔

صبح کے نو بجنے والے تھے۔ دونوں خراماں خراماں چلتے ہوئے کلینک تک پہنچے۔ ڈاکٹر نے اچھی طرح معائنہ کیا مگر سب کچھ نارمل تھا۔ ایک دو ٹیسٹ فوری طور پہ کروائے وہ بھی ٹھیک نکلے۔ احتیاطاً انھیں کچھ دوائیں لکھ دیں اور تسلی دے کر گھر روانہ کر دیا کہ وہ کسی بھی قسم کی زہر خورانی سے پاک ہیں۔ اور مزید بتایا کہ عام طور پر گھروں میں پائی جانے والی چھپکلیاں زہریلی نہیں ہوتیں۔ البتہ چھپکلیوں کی کچھ قسمیں زہریلی ضرور ہوتی ہیں جو جنگل بیابانوں میں پائی جاتی ہیں۔

گھر پہنچ کر دونوں نے دوا لی اور چاچا نے چاچی سے پوچھا۔ ۔۔ نیک بخت! یہ تو بتاؤ تھرماس میں چھپکلی آئی کیسے؟ ”میں کیا جانوں کیسے آئی؟ کل تو دھو کر رکھا تھا۔ صبح میں نے دیکھے بغیر ہی اس میں چائے انڈیل دی اور ڈھکن بند کر دیا۔ ہو سکتا ہے چھپکلی پہلے سے ہی تھرماس کے اندر موجود ہو اور گرم چائے ڈالنے سے مر گئی ہو۔“

”ہاں یہی ہو سکتا ہے۔ لیکن آئندہ خیال رکھنا نیک بخت! اس بار تو ہماری خوش نصیبی تھی کہ بچ گئے۔ لیکن ہر بار ایسا نہیں ہو گا۔ کھانے پینے کے برتن دھو کر اور دیکھ بھال کر استعمال کرنا ہمیشہ۔“ چاچی مہ لقا نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے کہ آئندہ کوئی برتن بغیر دھوئے اور بغیر دیکھے بھالے استعمال نہیں کریں گی۔

^•°•°•°•°•°•°•°•°^ اسی طرح کا ایک اور واقعہ قریبی رشتے داروں میں پیش آیا۔ گھر والے سب سو رہے تھے۔ رات کے کسی پہر منجھلی بیٹی کو پیاس لگی۔ کولر کے پاس ہی گلاس رکھا تھا۔ پانی بھرا اور نیند کے خمار میں بغیر دیکھے ہی غٹاغٹ پی لیا۔ صبح سو کر اٹھی تو پورا جسم الرجی کا شکار ہو چکا تھا۔ آنکھیں اور ہونٹ تک سوجے ہوئے تھے ۔ سب گھر والے پریشان یہ کیا ہو گیا؟ کیسے ہو گیا؟ فوراً ہسپتال لے کر بھاگے۔ وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ کوئی زہریلی چیز کھائی ہے جس کا یہ ری ایکشن ہوا ہے۔ بہرحال ابتدائی طبی امداد دی اور دوائیں وغیرہ دے کر گھر واپس بھیج دیا۔

گھر والوں نے چھان بین کی تو پتا چلا رات کو بچی پانی پینے اٹھی تھی۔ اب جا کر دیکھا تو کولر کے پاس جو گلاس رکھا تھا اس میں لا تعداد مری ہوئی چیونٹیاں چپکی ہوئی تھیں ۔ مزید تحقیق کرنے پہ پتا چلا کہ رات سوتے وقت کسی نے دودھ کا شربت اس گلاس میں پیا تھا اور پھر بغیر دھوئے ہی کولر کے پاس رکھ دیا۔ گلاس میں چینی کے دانے اب تک باقی تھے۔ میٹھی چیز پر چیونٹیوں نے ہلہ بول دیا اور سینکڑوں کی تعداد میں گلاس کے اندر جمع ہو گئیں۔ وہ بچی بھی نیند کے نشے میں ایسی مست کہ کولر سے پانی بھرا اور دیکھے بغیر ہی گلاس منہ سے لگا لیا اور یہ بھی اندازہ نہ کر سکی کہ پانی کے ساتھ کتنی زہریلی چیونٹیاں پیٹ میں چلی گئیں اور جا کر تباہی مچا دی۔

اسی لیے ہمارے دین نے کھانے پینے کے بہت آداب سکھائے ہیں۔ جن میں ایک ادب یہ بھی ہے کہ پانی ہمیشہ دیکھ کر پیا جائے اور رکھے ہوئے برتن بھی دھو کر اور دیکھ بھال کر استعمال کیے جائیں۔ ورنہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔