شوہر کی جان پر بنی ہو تو بیوی اس طرح کیسے کہہ سکتی ہے۔ میں نے تھوڑی دیر بعد خود فون کیا، ان سے نام لے کر پوچھا کہ کیا آپ ان کی بیگم ہیں۔ کہنے لگیں جی ہاں میں ان کی بیوی بات کر رہی ہوں۔ میں نے مریض کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ساتھ آپ نے چھ سات سال کے بچے کو بھجوایا ہوا ہے۔ آپ خود تشریف لے آئیں یا گھر میں سے کسی اور کو بھجوا دیں۔ کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحبہ میں تو گھر میں اکیلی ہوں۔ میں گھر کو چھوڑ کر نہیں آ سکتی۔

تحریر:ڈاکٹر فرخ فاطمہ اشرف
انتخاب : محی الدین

چند دن پہلے میری ایمرجنسی ڈیوٹی پر ایک مریض کو لایا گیا۔ ان کی عمر قریبا 55 سال تھی۔ وہ پارکنسن ڈیزیز کے مریض تھے(رعشے کی بیماری)، ہسپتال میں اپنی روٹین کی دوالینے آئے تھے لیکن ہسپتال میں آ کر اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ چھاتی میں شدید درد شروع ہو گیا ۔ ان کے ساتھ اس کا چھ سات سالہ بیٹا تھا۔ ہسپتال میں کسی اور مریض کے ساتھ آیا ہوا ایک نوجوان ان کو ایمرجنسی میں لے کر آیا۔

فورا مریض کی ای سی جی کی گئی جس نے مایوکارڈیل انفارکشن (عرف عام میں ہارٹ اٹیک) کی تصدیق کر دی۔ میں نے اسٹاف کو مریض کے ضرور بلڈ ٹیسٹ بھجوانے کا کہا اور مریض کو ابتدائی ضروری ٹریٹمنٹ ایڈوائس کر دیا۔ متعلقہ کنسلٹنٹ سے بھی کیس ڈسکس کر لیا۔

میں نے مریض سے کہا آپ اپنے گھر میں سے کسی کا کانٹیکٹ نمبر دے دیں، تا کہ آپ کے گھر والوں کو بلایا جا سکے۔ ان کے ساتھ چھوٹا بچہ تھا جو اس صورتحال میں ہراساں نظر آ رہا تھا۔

انہوں نے اپنی جیب سے ایک پرچی نکال کر دے دی۔ کہ یہ میری بیوی کا فون نمبر ہے۔ میں نے ا سٹاف سے اس نمبر پر فون کرنے کا کہا اور خود دوسرے مریض دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اسٹاف میرے پاس آئیں اور بتانے لگیں کہ ان کی بیگم نے فون اٹھایا تھا، ان کو ان کے شوہر کی حالت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ کہنے لگیں کہ" ابھی میں گھر میں اکیلی ہوں، میں گھر چھوڑ کر نہیں آ سکتی، آپ کو جو علاج ٹھیک لگتا ہے کر دیں اور انہیں گھر بھیج دیں۔"

مجھے سن کر بہت حیرت ہوئی کہ شوہر کی جان پر بنی ہو تو بیوی اس طرح کیسے کہہ سکتی ہے۔ میں نے تھوڑی دیر بعد خود فون کیا، ان سے نام لے کر پوچھا کہ کیا آپ ان کی بیگم ہیں۔ کہنے لگیں جی ہاں میں ان کی بیوی بات کر رہی ہوں۔ میں نے مریض کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ساتھ آپ نے چھ سات سال کے بچے کو بھجوایا ہوا ہے۔ آپ خود تشریف لے آئیں یا گھر میں سے کسی اور کو بھجوا دیں۔ کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحبہ میں تو گھر میں اکیلی ہوں۔ میں گھر کو چھوڑ کر نہیں آ سکتی۔ اور بھی کوئی آنے والا نہیں ہے۔ (میں نے گھر کا ایڈریس پوچھا، گھر ہسپتال سے بمشکل پندرہ بیس منٹ کی دوری پر تھا).

میں نے ان کو تھوڑی سخت سنائیں کہ آپ کو اپنے شوہر کی حالت کا کوئی احساس نہیں ہے ، گھر کو لاک کر کے آ جائیں، گھر کونسا کہیں جا رہا ہے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں اور جلدی سے کہنے لگیں کہ" آپ میرے بیٹے کو فون کر لیں، وہ کہیں باہر گیا ہوا ہے، میں نمبر لکھوا دیتی ہوں".

انہوں نے نمبر لکھوا کر فون بند کر دیا۔ میں نے اسٹاف سے اس نمبر پر کال کرنے کا کہا، بار بار ٹرائی کرنے پر بھی وہ نمبر پر بار آف جا رہا تھا۔ شاید جان بوجھ کر وہ نمبر دیا گیا ہو جو آف ہو۔

خیر، میں دل ہی دل میں اس خاتون کے رویے پر افسوس کرتی رہی۔ چند گھنٹے کے بعد اس مریض کی حالت خاصی بہتر ہو گئی، چھاتی کا درد اور سانس کی دشواری بھی کافی بہتر ہو گئی۔ ان کے ساتھ ان کا چھوٹا بیٹا تھا جو صورتحال کو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتا تھا۔ اس نے ان کو تنگ کرنا شروع کر دیا کہ پاپا جی گھر چلیں۔ انہوں نے تھوڑی دیر اس کو سمجھایا لیکن بچے کا ہر تھوڑی دیر بعد ایک ہی راگ کہ پاپا جی گھر جانا ہے۔

آخر مریض مجھے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحبہ مجھے چھٹی دے دیں۔ ابھی مجھے گھر جانا ہے۔ ان کو میں نے اورا سٹاف نے سمجھایا کہ ابھی آپ کی حالت گھر بھیجنے والی نہیں ہے۔ وہ چپ کر گئے ۔ لیکن اس بچے نے ان کو اتنا زچ کیا کہ وہ باقاعدہ منت کرنے پر آ گئے کہ ابھی آپ مجھے چھٹی دے دیں، میں کل دوبارہ چیک کروانے آ جاؤں گا ۔ اس بچے کو بھی ا سٹاف نے کافی سمجھایا کہ آپ کے پاپا کی حالت ابھی ٹھیک نہیں ، ابھی گھر جانا ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن وہ بچہ کسی سے نہ بہلا۔

آخر میں نے ان سے کہا کہ آپ لکھ کر دے دیں آپ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں اور سائن کر دیں۔ وہ کہتے کہ ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحبہ۔ میں نے اسٹیٹمنٹ لکھی اور انہوں نے سائن کر دئیے، جب وہ سر جھکا کر سائن کر رہے تھے تو میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔

یہ ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاس ایک تحریر ہے جس پر میں ذاتی طور پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔